عبادات اور دینی امور میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال

لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ان دنوں بہت عام ہوگیا ہے۔ مسجد میں نماز کے دوران امام صاحب پوری آواز کے ساتھ اس کا استعمال کرتے ہیں ، چاہے چند نمازی ہوں یا بڑا مجمع ہو۔ بعض علماء وعظ و نصیحت کے لیے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کو استعمال کرتے ہیں ، جس سے مسجد کے اطراف میں رہنے والے متاثر ہوتے ہیں ، جن میں امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبہ، شدید بیمار لوگ اور غیر مسلم حضرات بھی ہوتے ہیں ، اسی طرح اس کا استعمال نعت خوانی اور دیگر مذہبی تقریبات کے لیے پبلک مقامات پر ہوتا ہے اور اس میں دن اور رات کی کوئی قید نہیں رکھی جاتی۔ بعض دینی جماعتیں شاہ راہوں اور چوراہوں پر اپنے کیمپ لگا کر اپنے مجو ّزہ اجتماعات یا مصیبت زدہ مسلمانوں کی امداد کی خاطر عطیات جمع کرنے کے لیے اعلانات کرتے وقت لاؤڈ اسپیکر کا پوری قوت سے استعمال کرتی ہیں ۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ کیا دینی و شرعی اعتبار سے لاؤڈ اسپیکر کا اس طرح استعمال جائز ہے؟
جواب

لاؤڈ اسپیکر کے استعمال میں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے۔ اگر اس کا استعمال مسجد میں باجماعت نماز کے لیے ہو رہا ہو تو اسے اسی وقت لگایا جائے جب مجمع اتنا بڑا ہو کہ بغیر اس کے تمام نمازیوں تک امام صاحب کی آواز نہ پہنچ سکتی ہو۔ اگر صرف چند نمازی ہوں تو لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی کوئی ضرورت نہیں ۔
مسجد یا کسی ہال میں کوئی دینی اجتماع ہو رہا ہو تو لاؤڈ اسپیکر کی آواز اتنی تیز رکھنی چاہیے کہ وہاں موجود لوگ اچھی طرح سن سکیں ۔ وہاں ہونے والے خطبات و مواعظ کی آواز کو آبادی میں دور دور تک پہنچانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا Volume تیز رکھنا مناسب نہیں ۔ اس لیے کہ آبادی میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں ، جن کے معمولات میں تیز آواز سے خلل ہو یا انھیں اذیت پہنچے۔ اسی طرح پبلک مقامات، شاہ راہوں اور چوراہوں پر مذہبی اجتماعات یا دیگر پروگرام منعقد کرتے وقت بھی خیال رکھنا چاہیے کہ راہ چلنے والوں یا آس پاس میں رہنے والوں کو کسی طرح کی زحمت نہ ہو اور وہ تکلیف یا پریشانی محسوس نہ کریں ۔ اس سلسلے میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے:
مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلاَ یُؤْذِ جَارَہٗ ۔(۱)
’’جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچائے۔‘‘
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام کے ساتھ ایک غزوے میں نکلے۔ راستے میں صحابہ کسی اونچے مقام پر چڑھتے یاکہیں نشیبی جگہ میں اترتے تو زور زور سے نعرۂ تکبیر بلند کرتے۔ اسی طرح جب وہ واپس ہوئے تو مدینہ سے قریب پہنچنے پر بھی بلند آواز سے نعرے لگانے لگے۔ اس موقع پر آپؐ نے انھیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
اَیُّھَا النَّاسُ، ارْبَعُوْا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ، اِنَّکُمْ لَیْسَ تَدْعُوْنَ اَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، اِنَّکُمْ تَدْعُوْنَ سَمِیْعًا قَرِیْبًا وَ ھُوَ مَعَکُمْ ۔(۱)
’’لوگو، ٹھہرو، تم کسی بہرے یا غیر حاضر کو نہیں پکار رہے ہو، تم جس ذات کی کبریائی بیان کر رہے ہو وہ ہر بات سننے والا اور قریب ہے اور وہ ہر وقت تمھارے ساتھ ہے۔‘‘
اگر آبادی مخلوط ہو اور ساتھ میں دیگر مذاہب کے ماننے والے رہتے ہوں تو اس معاملے میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں لاپروائی سے بسا اوقات نہ صرف دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی اور نفرت پیدا ہوتی ہے، بلکہ کبھی معاملہ اشتعال انگیزی اور تنازعہ تک پہنچ جاتا ہے۔