عدّت کا حساب کیسے کیا جائے؟

,

 میرے والد صاحب کا گذشتہ ماہ انتقال ہوگیا ہے، والدہ عدّت میں ہیں۔ وہ جاننا چاہتی ہیں کہ عدّت ِ وفات کا حساب کیسے لگایا جائے گا؟ شمسی تاریخ کے حساب سے یا قمری تاریخ سے؟ فرض کیجیے، اگر گذشتہ ماہ کی ۷؍ تاریخ سے عدّت شروع ہو تو وہ کب پوری ہوگی؟

جواب

قرآن مجید میں عدّت کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (البقرۃ: ۲۳۴)

’’اور تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو بیویاں اپنے بارے میں چار ماہ دس دن توقف کریں۔ ‘‘

اس آیت میں صراحت ہے کہ عدّت ِ وفات چار ماہ دس دن ہے۔ اس کا حساب قمری تاریخ کے اعتبار سے لگایاجائے گا۔ اس کی دو صورتیں فقہا نے بیان کی ہیں :

۱۔ اگر وفات ہجری تقویم کے حساب سے مہینہ کی پہلی تاریخ میں ہوئی ہو تو قمری کلینڈر کے لحاظ سے چار ماہ ماہ دس دن عدّت ہوگی، خواہ کوئی مہینہ انتیس (۲۹) کا ہی کیوں نہ ہو۔

۲۔ اگر وفات مہینے کے درمیان میں ہوئی ہو تو ایک سو تیس (۱۳۰) دن میں عدّت مکمل ہوگی۔ (چار مہینوں میں سے ہر مہینہ کو تیس دن کا فرض کرے، پھر اس میں دس دن کا اضافہ کرے۔) [فتاویٰ شامی: ۳؍ ۵۰۹]

مثال کے طور پر اگر کسی شخص کی وفات ۷؍ جنوری (۲۴؍ جمادی الاخریٰ) کو ہوئی ہو تو اس کی بیوہ کی عدّت ۱۶؍ مئی کو مکمّل ہوگی۔

Fabruary 2024