جواب
عورتوں کے مختلف احوال کے مطابق عدّت کے احکام الگ الگ ہیں ۔ انھیں ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
(۱) جن بالغ لڑکیوں کے نکاح کے بعد ان کی رخصتی ہوگئی ہو، بعد میں انھیں طلاق دے دی جائے، ان کی عدت تین حیض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْءٍ (البقرۃ۲۲۸) ’’جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ تین مرتبہ ایام ماہ واری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں ‘‘۔
(۲) جن لڑکیوں ؍عورتوں کو حیض نہ آتا ہو، چاہے حیض ابھی آنا نہ شروع ہوا ہو (یعنی لڑکی نابالغ ہو) یا حیض آنا بند ہو گیا ہو(یعنی عورت بڑی عمر کو پہنچ گئی ہو) ان کی عدت تین ماہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے: وَالّٰئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِن نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ أَشْہُرٍ وَالّٰئِیْ لَمْ یَحِضْنَ (الطلاق۴) ’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں ان کے معاملے میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمھیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے اور یہی حکم ان کا ہے جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو‘‘۔
(۳) نکاح کے بعد رخصتی سے قبل ہی اگر کسی لڑکی؍ عورت کو طلاق دے دی جائے تو اس کی عدت نہیں ہے، چاہے وہ حائضہ ہو یا غیر حائضہ۔ وہ طلاق پاتے ہی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّونَہَا
(الاحزاب۴۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمھاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے، جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو‘‘۔
۴- حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ (الطلاق۴)
’’اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے‘‘۔
۵- اگر بیوہ حاملہ ہو تو اس کی عدت کیا ہوگی؟ چار ماہ دس دن یا وضع حمل؟ اس سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں اس پر ایک طویل حاشیہ لکھا ہے، جس سے اس مسئلے کی اچھی طرح وضاحت ہوجاتی ہے۔ اسے ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:
’’اس امر پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ لیکن اس امر میں اختلاف واقع ہوگیا ہے کہ آیا یہی حکم اس عورت کا بھی ہے جس کا شوہر زمانۂ حمل میں وفات پا گیا ہو؟ یہ اختلاف اس وجہ سے ہوا ہے کہ سورۂ بقرہ آیت ۲۳۴ میں اس عورت کی عدت چار مہینے دس دن بیان کی گئی ہے جس کا شوہر وفات پا جائے اور وہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ حکم آیا تمام بیوہ عورتوں کے لیے عام ہے یا ان عورتوں کے لیے خاص ہے جو حاملہ نہ ہوں ؟
حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ان دونوں آیتوں کو ملا کر یہ استنباط کرتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ کی حد تو وضع حمل تک ہی ہے، مگر بیوہ حاملہ کی عدت آخر الاَجلَین ہے، یعنی مطلقہ کی عدت اور حاملہ کی عدت میں سے جو زیادہ طویل ہو وہی اس کی عدت ہے۔ مثلاً اگر اس کا بچہ چار مہینے دس دن سے پہلے پیدا ہوجائے تو اسے چار مہینے دس دن پورے ہونے تک عدت گزارنی ہوگی اور اگر اس کا وضع حمل اس وقت تک نہ ہو تو پھر اس کی عدت اس وقت پوری ہوگی جب وضع حمل ہوجائے۔ یہی مذہب امامیہ کا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ سورۂ طلاق کی یہ آیت سورۂ بقرہ کی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے، اس لیے بعد کے حکم نے پہلی آیت کے حکم کو غیر حاملہ بیوہ کے لیے خاص کردیا ہے اور ہر حاملہ کی عدت وضع حمل تک مقرر کردی ہے، خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ۔ اس مسلک کی رو سے عورت کا وضع حمل چاہے شوہر کی وفات کے فوراً بعد ہوجائے یا چار مہینے دس دن سے زیادہ طول کھنچے، بہر حال بچہ پیدا ہوتے ہی وہ عدت سے باہر ہوجائے گی۔ اس مسلک کی تائید حضرت ابی بن کعبؓ کی یہ روایت کرتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں جب سورۂ طلاق کی یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا: کیا یہ مطلقہ اور بیوہ دونوں کے لیے ہے؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا: ہاں ۔ دوسری روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید تصریح فرمائی:اَجَلُ کُلِّ حَامِلٍ اَنْ تَضَعَ مَافِی بَطْنِہَا، ’’ ہر حاملہ عورت کی عدت کی مدت اس کے وضع حمل تک ہے ’’ (ابن جریر، ابن ابی حاتم) ابن حجر کہتے ہیں کہ اگرچہ اس کی سند میں کلام کی گنجائش ہے، لیکن چوں کہ یہ متعدد سندوں سے نقل ہوئی ہے اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ اس کی کوئی اصل ضرور ہے)۔ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر اس کی مضبوط تائید حضرت سبیعہ اسلمیہؓ کے واقعہ سے ہوتی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں پیش آیا تھا۔ وہ بہ حالت حمل بیوہ ہوئی تھیں اور شوہر کی وفات کے چند روز بعد (بعض روایات میں ۲۰ دن، بعض میں ۲۳ دن، بعض میں ۲۵ دن، بعض میں ۴۰ دن اور بعض میں ۳۵ دن بیان ہوئے ہیں ) ان کا وضع حمل ہوگیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے معاملہ میں فتویٰ پوچھا گیا تو آپؐ نے ان کو نکاح کی اجازت دے دی۔ اس واقعہ کو بخاری و مسلم نے کئی طریقوں سے حضرت ام سلمہؓ سے روایت کیا ہے۔ اسی واقعہ کو بخاری، مسلم، احمد، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے مختلف سندوں کے ساتھ حضرت مسور بن مخرمہ سے بھی روایت کیا ہے۔ مسلم نے خود حضرت سبیعہ اسلمیہؓ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ میں حضرت سعد بن خولہؓ کی بیوی تھی۔ حجۃ الوداع کے زمانے میں میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، جب کہ میں حاملہ تھی۔ وفات کے چند روز بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہوگیا۔ ایک صاحب نے کہا کہ تم چار مہینے دس دن سے پہلے نکاح نہیں کرسکتیں ۔ میں نے جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے پوچھا تو آپؐ نے فتویٰ دیا کہ تم وضع حمل ہوتے ہی حلال ہوچکی ہو، اب چاہو تو دوسرا نکاح کرسکتی ہو۔ اس روایت کو بخاری نے بھی مختصراً نقل کیا ہے۔
صحابہ کی کثیر تعداد سے یہی مسلک منقول ہے۔ امام مالک، امام شافعی، عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر رحمہم اللہ نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے حاملہ بیوہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا اس کی عدت وضع حمل گی ہے۔اس پر انصار میں سے ایک صاحب بولے کہ حضرت عمرؓ نے تو یہاں تک کہا: تھا کہ اگر شوہر ابھی دفن بھی نہ ہوا ہو بلکہ اس کی لاش اس کے بستر پر ہی ہو اور اس کی بیوی کے ہاں بچہ ہوجائے تو وہ دوسرے نکاح کے لیے حلال ہوجائے گی۔ یہی رائے حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو مسعود بدری اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کی ہے اور اسی کو ائمہ اربعہ اور دوسرے اکابر فقہا نے اختیار کیا ہے‘‘۔
(تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص ۵۷۱۔۵۷۲، سورۂ الطلاق، حاشیہ ۱۴)
عدت کے احکام میں مزید تفصیلات اور جزئیات ہیں ۔ انھیں کتبِ فقہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔