عقیقہ کے احکام

ہماری ایک عزیزہ کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی، لیکن گھر والوں نے عقیقہ نہیں کیا، یعنی انھوں نے جانور ذبح نہیں کیا، بس ساتویں دن بچے کے سر کے بال منڈوا دیے۔ براہِ کرم واضح فرمائیں کہ عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا عقیقہ کرنا ضروری ہے؟ کوئی اپنے بچے کا عقیقہ نہ کرے تو کیا گناہ گار ہوگا؟ اگر بچے کا سر منڈوا دیا جائے تو کیا بعد میں کبھی عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہاں تو کب تک؟
جواب

بچے یا بچی کی ولادت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے کہ اس نے اولاد سے نوازا ہے اور اسے زندگی عطا کی ہے اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے مقصد سے جانور ذبح کرنے کو عقیقہ کہا جاتا ہے۔ قبل اسلام بھی یہ رسم رائج تھی۔ حضرت بریدہ بن الحصیب الاسلمیؓ نے بیان کیا ہے کہ عہدِ جاہلیت میں جب کسی کے یہاں بچے کی ولادت ہوتی تو وہ ایک بکرا ذبح کرتا اور بچے کا سر مونڈ کر اس پر اس جانور کا خون مل دیتا۔ اسلام آنے کے بعد ہم بچے کی پیدائش پر بکرا ذبح کرتے، بچے کا سر مونڈتے اور اس پر زعفران ملتے۔‘‘ (ابو داؤد۲۸۴۳)
متعدد احادیث میں عقیقہ کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت سلمان بن عامر الضبیّؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے
مَعَ الغُلَامِ عَقِیْقَۃٌ، فَاَھْرِ یْقُوا عَنْہُ دَماً وَاَمِیْطُوْا عَنْہُ الأذیٰ
(بخاری ۵۴۷۲)
’’بچے کا عقیقہ کیا جائے۔ اس کی طرف سے خون بہاؤ(یعنی جانور ذبح کرو) اور اس سے گندگی دور کرو (یعنی اس کا سر منڈواؤ)‘‘۔
حضرت سمرہ بن جندب ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
کُلُّ غُلَامٍ رَھِیْنٌ بِعَقِیقَتِہ، تُذْبَحُ عَنْہُ یَوْمَ سَابِعِہٖ وَیُحْلَقُ وَیُسَمّٰی (ابو داؤد ۲۸۳۸، ترمذی ۱۵۲۲، نسائی۴۲۲۰)
’’ہر بچے کا عقیقہ کیا جائے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، اس کا سر مونڈا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔‘‘
حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے نواسے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی ولادت پر ان کا عقیقہ کیا تھا۔ سنن ابی داؤد(۲۸۴۱) میں ہے کہ آپؐ نے ہر ایک کی طرف سے ایک مینڈھا ذبح کیا تھا، جب کہ سنن نسائی (۴۲۱۹) میں ہر ایک کی طرف سے دو مینڈھے ذبح کیے جانے کی صراحت ہے۔
ان احادیث کی بنا پر شوافع اور (مشہور قول کے مطابق) حنابلہ نے عقیقہ کو سنت مؤکّدہ قرار دیا ہے۔ مالکیہ اسے مستحب کہتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہؒ کی طرف مباح ہونے کا قول منسوب ہے، لیکن بعض فقہائے احناف نے بھی اسے مستحب قرار دیا ہے۔
حضرت سمرہ ؓ سے مروی مذکورہ بالا روایت میں ساتویں دن عقیقہ کیے جانے کا ذکر کیا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ، جو حضرت بریدہ اسلمیؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ اگر ساتویں دن نہ ہو سکے تو چودھویں دن اور اُس دن بھی نہ ہو سکے تو اکیسویں دن عقیقہ کرنا چاہیے۔ (بیہقی ۱۹۷۷۱، الجامع الصغیر للسیوطی ۵۶۸۱، المعجم الاوسط للطبرانی ۴۸۸۲)
فقہا کہتے ہیں کہ یوں تو عقیقہ ولادت کے بعد کسی بھی دن کیا جا سکتا ہے، لیکن ساتویں دن کرنا مستحب ہے۔ ورنہ چودھویں دن یا اکیسویں دن کیا جائے۔ اگر اس موقع پر بھی نہ ہو سکے تو اس کے بعد حسبِ سہولت کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔