براہِ کرم عقیقہ کے سلسلے میں درج ذیل مسائل میں رہ نمائی فرمائیں :
۱۔ ساتویں دن عقیقہ کرنا مسنون کہا جاتا ہے۔ کیا حسبِ ضرورت دو ایک دن پہلے یا دو ایک دن بعد عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟
۲۔ عقیقہ میں دو جانور قربان کرنے ہیں۔ کیا دونوں کی قربانی الگ الگ مقامات پر کی جا سکتی ہے؟
۳۔ بچے کے سر میں کچھ پھنسیاں ہیں۔ ڈاکٹر بال بنوانے سے منع کر رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عقیقہ ابھی کردیا جائے اور بال کبھی بعد میں بنوا دیے جائیں۔
۴۔ کیا عقیقہ بڑے جانور سے کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہاں تو کیا اس میں حصوں کا اعتبار ہوگا یا ایک جانور صرف ایک عقیقہ کے لیے ہوگا؟
۵۔ کیا عقیقہ کا گوشت شادی یا ولیمہ میں آئے ہوئے مہمانوں کو کھلایا جا سکتا ہے؟
۶۔ عقیقہ میں سر منڈوایا جائے تو بال کہاں پھینکے جائیں ؟
جواب
عقیقہ کی شرعی حیثیت کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع اور حنابلہ اسے سنت مؤکدہ کہتے ہیں، جب کہ حنفیہ کے نزدیک یہ صرف ایک مباح عمل ہے، البتہ ان کے بعض فتاویٰ میں اسے سنت اور بعض میں مستحب قرار دیا گیا ہے۔ حدیث میں عقیقہ ساتویں دن کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
تُذبحُ عنه یومَ السابع ویُحلقُ رأسه ویُسمّیٰ(ابو داؤد: ۲۸۳۸)
’’ساتویں دن عقیقہ کیا جائے، سر منڈوایا جائے اور نام رکھا جائے۔ ‘‘
۱۔ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کیا جاسکے تو بعض روایات میں چودہویں دن اور بعض میں اکیسویں دن کرنے کو کہا گیا ہے۔ (مستدرک حاکم: ۷۵۹۵) اگر کوئی مجبوری اور شدید ضرورت ہو توساتویں دن سے پہلے بھی کیا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ صورت مستحب شمار نہ ہوگی۔
۲۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لڑکے کے عقیقے میں دو جانور اور لڑکی کے عقیقے میں ایک جانور ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ (ترمذی: ۱۵۱۳) بہرحال یہ لازم نہیں ہے۔ حسبِ ضرورت لڑکے کا عقیقہ ایک جانور سے ہوسکتا ہے اور لڑکی کے عقیقے میں دو جانور ذبح کیے جا سکتے ہیں۔
۳۔ حدیث میں کہا گیا ہے کہ ساتویں دن عقیقہ میں جانور ذبح کیا جائے اور سر منڈواکر بالوں کے وزن کے برابر چاندی کی مالیت کا صدقہ کیا جائے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے سر منڈوانا ممکن نہ ہو تو یہ جائز ہے کہ عقیقہ ساتویں دن کردیا جائے اور سر کے بال بعد میں حسبِ سہولت منڈوائے جائیں۔
۴۔ بعض فقہا کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عقیقہ چھوٹے جانور سے کیا ہے۔ اس لیے بڑے جانور سے عقیقہ کرنا درست نہیں ہے، لیکن بعض دیگر فقہا کہتے ہیں کہ عقیقہ میں وہ تمام جانور ذبح کیے جا سکتے ہیں، جن کی قربانی جائز ہے۔ پھر ان فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک عقیقہ میں مکمل جانور ذبح کرنا ہوگا، جب کہ دیگر فقہا کہتے ہیں کہ جس طرح بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے ہو سکتے ہیں، اسی طرح عقیقہ میں بھی سات حصے لگائے جاسکتے ہیں۔
۵۔ عقیقہ کے ذبیحہ کی وہی حیثیت ہوتی ہے، جو قربانی کے ذبیحہ کی ہوتی ہے۔ اس کا گوشت خود بھی کھایا جا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلایا جا سکتا ہے۔ اس کا گوشت کچا تقسیم کیا جا سکتا ہے اور پکا کر دعوت کرکے بھی کھلایا جا سکتا ہے۔ شادی یا ولیمہ میں آئے ہوئے مہمانوں کو کھلا دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
۶۔ عقیقہ کے وقت بچے کا سر منڈوانے پر جو بال نکلتے ہیں ان میں کوئی تقدس نہیں ہوتا۔ انھیں کسی طرح بھی ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ چاہیں تو زمین میں گڈھا کھود کر دفن کردیں۔