عورتوں میں  حیض کی ابتدا

ایک کتاب میں  پڑھا ہے کہ عورتوں میں حیض کی ابتدا بنی اسرائیل سے ہوئی۔ ان سے قبل عورتوں کو حیض نہیں  آتا تھا۔ ان کی عورتوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کو یہ سزا دی گئی ۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا یہ بات صحیح ہے؟ مجھے تو اس کے بجائے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کو روز اول سے حیض آتا رہاہے۔
جواب

حدیث کی بعض کتابوں میں اس مضمون کی روایات موجود ہیں ۔ ان میں  کہا گیا ہے کہ ’’ بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں میں  جانے اورمردوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کی اجازت تھی۔ وہاں انہوں نے ایڑیاں اونچی کرکے مردوں کی تاک جھانک شروع کردی۔ چنانچہ انہیں  مسجد جانے سے روک دیا گیا اور ان پر حیض مسلط کردیاگیا۔‘‘ یہ روایت مصنف عبدالرزاق اورمسند اسحاق بن راہویہ وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، حضرت اسماء بن ابی بکرؓ اورام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے مرفوعاً مروی ہیں ۔ ان میں  بنی اسرائیل کے عہدسے عورتوں میں  حیض کی ابتدا کی جوبات کہی گئی ہے وہ درست نہیں  ہے۔
بعض صحیح احادیث سے اشارہ ملتا ہے کہ عورتوں میں  حیض کی ابتداروز اول سے ہے۔ حضرت عائشہؓ حجۃالوداع میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلیں  ۔راستے میں  انہیں حیض آگیا تو وہ اس اندیشے سے رونے لگیں کہ اب وہ مناسک حج اداکرنے سے محروم ہوجائیں گی۔ آپؐ کومعلوم ہوا تو آپؐ نے انہیں  سمجھاتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ ھٰذَا شَیْءٌ کَتَبَہٗ اللہُ عَلٰی بَنَاتِ آدَمَ ، فَاقْضِی مَایَقْضِی الْحَاجُّ غَیْرَ اَنْ لَا تَطُوْفِی بِالْبَیْتِ حَتّٰی تَغْتَسِلِیْ ۔(بخاری۲۹۴:،مسلم ۱۲۱۱)
’’یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اولاد ِ آدم میں عورتوں کے لیے لازم کردیا ہے۔ اس حالت میں تم بھی وہی سب کرو جو حاجی کرتا ہے ، صرف پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔‘‘
اسی طرح کی ایک حدیث حضرت ام سلمہ ؓ سے بھی مروی ہے ۔ وہ بیان کرتی ہیں  کہ ایک موقع پر میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی کہ مجھے حیض آنے لگا ۔ میں  وہاں سے اٹھ گئی۔ آپؐ نے دریافت کیاتو میں نے بتایا کہ مجھے حیض آنے لگا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
ذَاکَ مَاکَتَبَ اللہُ عَلَی بَنَاتِ آدَمَ (سنن ابن ماجہ ۲۳۷:)
’’یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں  پرلازم کردیا ہے۔‘‘
امام بخاریؒ نے اس موضوع پراپنی صحیح میں اظہارِ خیال کیاہے۔انہوں نے ایک عنوان قائم کیاہے: باب کیف کان بدء الحیض (اس چیز کابیان کہ حیض کا آغاز کیسے ہوا؟)۔ آگے انہوں  نے لکھاہے:
قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :ھٰذَا شَیْءٌ کَتَبَہٗ اللہُ عَلٰی بَنَاتِ آدَمَ،وَقَالَ بَعْضُھُمُ:کَانَ اَوَّلُ مَااُرْسِلَ الْحَیْضُ عَلَی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ (قَالَ اَبُوْ عَبْداللہ) وَحَدِیْثُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکْثَرُ۔ (بخاری، کتاب الحیض)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: یہ وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پرلازم کیاہے۔ بعض لوگوں  کا کہنا ہے کہ حیض کا آغاز بنی اسرائیل کی عورتوں سے ہواہے۔ اس معاملے میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد زیادہ معتبر ہے۔‘‘
اس کے بعد امام بخاریؒ نے حضرت عائشہ سے مروی وہ حدیث بیان کی ہے جسے اوپر درج کیاگیا ہے ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس حدیث کی تشریح میں  لکھا ہے:
’’بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض کا آغاز بنی اسرائیل سے ہوا۔ امام بخاریؒ نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ عورتوں کو حیض ابتدائے تخلیق سے آتا رہاہے۔ یہی بات جمہور سلف سے مروی ہے۔ امام بخاری نے اس پر استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی ارشاد سے کیاہے:’’ یہ وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لازم کیاہے۔‘‘ یہ استدلال بدیہی اورعمدہ ہے۔ انہوں نے جو حدیث روایت کی ہے اس میں  یہ جملہ موجود ہے ۔ اسی وجہ سے انہوں  نے اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں اس جملے کو حدیث روایت کرنے سے قبل ترجمۃ الباب میں  بھی شامل کردیاہے۔‘‘ (ابن حجر عسقلانی ، فتح الباری، شرح صحیح البخاری)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض کی ابتدا تو حضرت حوا سے ہوئی ہے، لیکن ایسا بہ طور سزا کے ہوا۔ ابن جریر طبریؒ نے آیت وَلَھُمْ فِیْھَا اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ (البقرۃ۲۵:) کی تفسیر میں عبدالرحمن بن زید ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے :مُّطَھَّرَۃٌ (پاکیزہ) کا مطلب ہے،وہ عورتیں جنہیں حیض نہ آتا ہو، حوا کی تخلیق بھی اسی طرح ہوئی تھی،یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی۔تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’میں نے تجھے ’پاکیزہ ‘بنایا تھا ، لیکن تو نے نافرمانی کی، اس لیے اب میں  تجھ سے خون جاری کردوں  گا۔‘‘
اس طرح کی روایات غیر معتبر اور ناقابل قبول ہیں ۔حیض دراصل ایک طبیعیاتی مظہر(Physiological Phenomenon)ہے، جس سے ہر ماہ عورت بلوغت (Puberty) سے سن یاس(Menopause) تک دو چاررہتی ہے۔ یہ صحت کی علامت ہے۔حیض کے خون سے بچے کی پرورش ہوتی ہے ۔اسی لیے استقرارِحمل کے بعد اوربسا اوقات دورانِ رضاعت میں (Lactation) عورت کو حیض نہیں  آتا۔غیرحاملہ عورت کو اگرحیض نہ آئے تو یہ مرض کی علامت ہے۔ یہ عورت کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی سزا نہیں ہے، بلکہ ایک مفوضہ ذمہ داری ہے ، جو تخلیق انسانیت کے لیے اللہ نے اس پر عائد کی ہے ۔بغیر جزع وفزع کے اس ذمے داری کی انجام دہی پر وہ اجروثواب کی مستحق ہوگی۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ایک حدیث میں  ہے کہ ایک موقع پرانہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : مجھے خیال ہوتا ہے کہ عورتیں مصیبت جھیلنے کے لیے ہی پیدا کی گئی ہے ۔(غالبا ان کا اشارہ حیض ہی کی طرف تھا، جس سے ہرماہ عورتیں  دوچار ہوتی ہیں ) اس پر آپؐ نے فرمایا:
لَا وَلٰکِنَّہٗ شَیْءٌ اُبْتُلِیَ بِہ نِسَآءُبَنِیْ آدَمَ۔ (مسند احمد ۲۴۶۰۹:)
’’نہیں ،بلکہ یہ ایسی چیزہے، جس کے ذریعے بنی آدم کی عورتیں  آزمائی گئی ہیں ۔‘‘ (مرسل ہونے کی بناپر اس روایت کو ضعیف قراردیاگیاہے۔)
حدیث کے ٹکڑے ’’ ھٰذَاشَیْءٌکَتَبَہٗ اللہُ عَلٰی بَنَاتِ آدَمَ ‘‘ کی تشریح میں علامہ ابن حجرؒ نے لکھا ہے:
’’لکھ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ انہیں حیض آئے۔اسے اس نے ان پر لازم کردیا ہے ۔اگر اس پر انہوں نے صبر کیا تو وہ اجر کی مستحق ہوں  گی۔‘‘(فتح الباری)