جواب
یہ بات صحیح ہے کہ فقہ حنفی کا مفتیٰ بہ قول عورتوں کی جماعت کے عدم ِجواز کا ہے، لیکن متعدد مشہور اور معتبر حنفی علما نے اس کے جواز کی رائے دی ہے۔مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے کہیں لکھا ہے کہ ان کے خاندان کی عورتیں جماعت سے نماز ادا کرتی تھیں ۔ اس پر لوگوں کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ حنفی مسلک کی رو سے یہ جائز نہیں تو مولانا عبد الحی فرنگی محلیؒ نے اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا تھا، جس میں اس کے جواز کا فتویٰ دیا تھا ۔
مولانا عبد الحی فرنگی محلی (۱۸۴۸۔۱۸۸۶ء) برِّ صغیر ہند کے عظیم محدّث اور فقیہ تھے۔ ان کی تحقیقات کو عالمِ عرب میں بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔ حنفی فقیہ ہوتے ہوئے انھوں نے متعدد مسائل میں فقہ حنفی کے مفتیٰ بہ مسلک سے ہٹ کر فتوٰی دیا ہے ۔اس وقت عورتوں کی امامت کے مسئلے پر ان کے فتویٰ کا خلاصہ مولانا ارشاد الحق اثری کی کتاب’ 'مسلک احناف اور مولانا عبد الحی لکھنوی‘'(ص۱۲۱،۱۲۲) سے پیش کیا جارہا ہے
’’ علمائے احناف کی کتبِ فقہ و فتاویٰ میں عام طور پر یہی کہا گیا ہے کہ عورت جماعت نہیں کرواسکتی۔ ردالمحتار، ہدایہ، طحطاوی علی مراقی الفلاح، البحر الرائق، تاتارخانیہ وغیرہ میں یہ بحث دیکھی جا سکتی ہے کہ عورتوں کو عورت نماز باجماعت نہیں پڑھا سکتی، بلکہ یہ عمل مکروہ ہے ۔ مولانا عبدالحیؒ نے’ 'شرحِ وقایہ‘ کے حاشیہ میں اس کراہت کے قول کی تردید کی ہے ۔ان کے الفاظ یہ ہیں
’’ ولا یخفی ضعفہ، بل ضعف جمیع ما وجّہوا بہ الکراہۃ، کما حقّقناہ فی تحفۃ النبلائ، ألّفناہ فی مسألۃ جماعۃ النسائ، و ذکرنا ہناک أن الحق عدم الکراہۃ، کیف لا و قد أمّت بہن أم سلمۃ و عائشۃ فی التراویح و فی الفرائض، کما أخرجہ ابن أبی شیبۃ و غیرہ، و قد أمّت أم ورقۃ فی عہد النبی ﷺ بأمرہ، کما أخرجہ أبو داؤد‘‘
(عمدۃ الرعایۃ۱؍۱۷۶)
’’ اس کی کم زوری، بلکہ ان تمام وجوہ کی کم زوری، جن کی بنا پر عورتوں کی جماعت کو مکروہ کہا گیا ہے، مخفی نہیں ، جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق’ تحفۃ النبلاء‘ میں کی ہے، جسے ہم نے عورتوں کی جماعت کے مسئلے کے بارے میں لکھا ہے اور وہاں ہم نے ذکر کیا ہے کہ حق یہی ہے کہ عورتوں کی جماعت مکروہ نہیں ، کیوں کہ حضرت ام سلمہؓ اور حضرت عائشہؓ نے عورتوں کو تراویح اور فرض نماز باجماعت پڑھائی ہے، جیسا کہ ابن ابی شیبہ وغیرہ میں ہے اور ابو داؤد میں ہے کہ نبی کریمﷺکے حکم سے ان کے زمانے میں ام ورقہؓ نے جماعت کرائی ۔یہی رائے امام شافعیؒ اور امام اسحاقؒ وغیرہما کی ہے۔‘‘
مولانا مرحوم نے اپنے جس رسالہ کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا نام ’تحفۃ النبلائ فیما یتعلق بجماعۃ النسائ‘ ہے۔ مولانا موصوف کے مجموعۂ فتاویٰ (ص۱۸۰،۱۸۱) میں عورتوں کی جماعت کے بارے میں میں علمائے احناف کا فتویِ کراہت بڑی شدّو مد سے موجود ہے، مگر خود ان کا فتویِ جواز بھی اس میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ ملاحظہ ہو، جلد اول، ص ۱۸۴۔۱۸۵