جواب
آپ اپنے گھر پر ہفتہ واری اجتماع منعقد کرتی ہیں ، جس میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والی بہنیں شریک ہوتی ہیں ۔ اجتماع کے ذریعے آپ حضرات اپنی دینی معلومات میں اضافہ کرنے، دین کا فہم حاصل کرنے اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام اور تعلیمات جاننے کے لیے کوشاں رہتی ہیں ۔ اس پر مبارک باد قبول فرمائیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: لاَ یَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِلاَّ حَفَّتْھُمُ الْمَلاَئِکَۃُ، وَ غَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ، وَ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ، وَ ذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ(صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن و علی الذکر، حدیث: ۲۷۰۰)
’’جن مجلسوں میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے، فرشتے ان کے شرکاء کو ڈھانپ لیتے ہیں ، رحمت ِ الٰہی ان پر سایہ فگن ہوتی ہے اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ عزّوجل فرشتوں کے درمیان ان کا ذکر خیر کرتا ہے۔‘‘
فقہی مسائل کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ فقہ نے شرعی دلائل (قرآن، سنت، اجتہاد، قیاس) کی روشنی میں مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ان کے درمیان بعض مسائل میں ، جو اختلاف ہے وہ حق و باطل کا نہیں بلکہ افضل اور غیر افضل کا اختلاف ہے۔ اس لیے جو لوگ قرآن و سنت سے بہ راہ راست استفادہ اور غیر منصوص میں اجتہاد پر قادر نہیں ہیں ان کے لیے عافیت اسی میں ہے کہ ائمہ فقہ میں سے کسی امام پر اعتماد کریں اور اس کے بیانات پر عمل کریں ۔ بعض مسائل میں اختلاف کو تنازعہ اور انتشار کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ آپ کے دریافت طلب سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :
(۱) سترِ عورت (جسم کے قابل ستر حصوں کو چھپانا) صحت ِ نماز کی شرائط میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰـبَـنِـیْٓ ٰ ادَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ(الاعراف:۳۱) ’’اے بنی آدم! ہر عبادت کے موقعے پر اپنی زینت سے آراستہ رہو۔‘‘ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں : اس آیت میں زینت سے مراد لباس ہے۔ (تفسیر طبری، ۱۲/۳۹۰)
نماز میں عورت کے لیے پورا بدن چھپانا ضروری ہے سوائے چند اعضاء کے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا (النور:۳۱) ’’اور اپنی زینت نہ دکھائیں بجز اس کے، جو خود ظاہر ہوجائے۔‘‘ وہ اعضا کیا ہیں ؟ ان کی تعیین میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک صرف چہرہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ امام مالکؒ و امام شافعیؒ کے نزدیک چہرہ اور ہتھیلیاں دونوں مستثنیٰ ہیں ۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک چہرہ اور ہتھیلیوں کے ساتھ پیر بھی ستر میں شامل نہیں ہیں ۔ (الافصاح عن معانی الصحاح، ابن ھبیرہ، ۱/۱۱۸، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، عبدا لرحمن الجزیری، ۱/۱۸۸)
شوافع میں سے امام مزنیؒ اور حنابلہ میں سے علامہ ابن تیمیہؒ بھی پیروں کو ستر سے مستثنیٰ کرتے ہیں ۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ، ۷؍۸۵،۲۷؍۶۰،۳۱؍۴۴) علامہ ابن تیمیہؒ نے تفصیل سے اس موضوع پر بحث کی ہے۔ (ملاحظہ کیجیے، فتاویٰ ابن تیمیہ، ۲۲/۱۰۹-۱۲۰)
دیگر فقہاء میں سے امام اوزاعیؒ اور امام ابو ثورؒ، امام مالکؒ و امام شافعیؒ کے ہم خیال ہیں اور امام ثوریؒ، امام ابو حنیفہؒ کے ہم خیال ہیں ۔ (المجموع شرح المھذب للامام نووی، ۳/۱۷۵)
(۲) رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ نماز کے سلسلے میں ، جو روایات مروی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ سجدے میں اپنے بازوؤں کو پیٹ اور رانوں سے الگ رکھ کر سجدہ فرماتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن اقرمؓ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح سجدہ کرتے ہوئے دیکھا کہ آپؐ کے بغل کی سفید ی نظر آ رہی تھی۔ (جامع ترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی التجافی فی السجود، حدیث:۲۷۴) حضرت میمونہؓ فرماتی ہیں : ’’نبی ﷺ جب سجدہ کرتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اس حد تک الگ رکھتے تھے کہ بکری کا چھوٹا بچہ آپؐ کے نیچے سے نکل سکتا تھا۔ ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب ما یجمع صفۃ الصلاۃ۔۔۔ حدیث: ۴۹۶)
کیا سجدے کا یہ طریقہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے یا عورتوں کے طریقۂ سجدہ میں کچھ فرق ہے؟
فقہاء کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عمل سے، جو طریقہ معلوم ہورہا ہے وہ مردوں کے لیے ہے۔ عورتوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ سمٹ کر اور اپنی رانوں کو پیٹ سے لگا کر سجدہ کریں ۔ الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے ’’عورت سجدے میں اپنے بازوؤں کو زمین پر بچھائے گی، اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملائے گی اور سمٹ کر سجدہ کرے گی۔ پردے کی مناسبت سے یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اس کے لیے مردوں کی طرح اپنے بازوؤں کو پیٹ سے الگ رکھنا مسنون نہیں ہے۔‘‘ (۷/۸۹)
یہ فقہاء احناف ہی کا نہیں بلکہ شوافع اور حنابلہ کا بھی یہی خیال ہے۔ فقہ شافعی کی مشہور کتاب ’المھذب‘میں ہے: ’’عورت سمٹ کر سجدہ کرے گی، اس لیے کہ یہ ستر کی مناسبت سے بہتر ہے۔‘‘ اس کی شرح میں امام نوویؒ فرماتے ہیں : ’’امام شافعیؒ اور ان کے اصحاب نے فرمایا ہے: ’’مسنون یہ ہے کہ سجدے میں مرد اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے دور رکھے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے اٹھا کر رکھے اور عورت سمٹ کر سجدہ کرے۔‘‘ (المجموع للنووی، ۳/۴۰۵)
حنبلی فقیہ امام خرقیؒ طریقۂ نماز کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’اس سلسلے میں مرد اور عورت کا معاملہ یکساں ہے۔ سوائے اس کے کہ عورت رکوع اور سجدہ سمٹ کر کرے گی۔‘‘ اس کی شرح میں علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ فرماتے ہیں : ’’اصل یہ ہے کہ نماز کے جو احکام مردوں کے لیے ہیں ، وہی عورتوں کے لیے بھی ہیں ۔ اس لیے کہ خطاب ان کو بھی شامل ہے سوائے ہیئت سجدہ کے۔ مردوں کے لیے سجدہ میں بازوؤں کو پہلو سے دور رکھنے کا حکم ہے لیکن عورتوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ سمٹ کر سجدہ کریں ، تاکہ ان کا ستر بہتر طریقے سے ہوسکے۔‘‘ امام نوویؒ نے اس سلسلے میں حضرت علیؓ کا ایک اثر بھی نقل کیا ہے۔ (المغنی، ۱/۶۲ھ)
فقہاء نے عورتوں کے طریقۂ سجدہ میں فرق کے سلسلے میں ابو داؤدؒ، ابن ابی شیبہؒ اور بیہقیؒ کے حوالے سے بعض روایات نقل کی ہیں ، لیکن ان کا پایۂ استناد کم زور ہے۔