عورتوں کے لیے سونے کا استعمال

نکاح کی ایک مجلس میں ایک بزرگ نے وعظ و نصیحت کی چند باتیں کہیں ۔ انھوں نے مسلمانوں کے درمیان رواج پانے والے اسراف اور فضول خرچی پر تنقید کی اور فرمایا کہ ہم اپنی بیٹیوں کا رشتہ طے کرتے ہیں تو سب سے پہلے سناروں کی دوکانوں پر پہنچ کر اپنی جیب خالی کردیتے ہیں ۔ اس پر ایک صاحب نے سوال کیا کہ کیا بیٹیوں کو زیورات نہ دیے جائیں ؟ اس کا انھوں نے جواب دیا کہ اگر دینا ہے تو چاندی کے زیورات دیے جائیں ۔ اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کے لیے سونے کے زیورات کو ناپسند کیا ہے اور ان کے بہ جائے چاندی کے زیورات استعمال کرنے کی ترغیب دی ہے۔ دوسرے صاحب نے اس مضمون کی حدیث کی صحت پر شبہ ظاہر کیا تو تیسرے صاحب نے بتایا کہ یہ حدیث شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ کی کتاب ’فضائل صدقات‘ میں موجود ہے۔ اس بحثا بحثی سے میں کنفیوژن کا شکار ہوگیا ہوں ۔ بہ راہ کرم اس مسئلے میں شریعت کی روشنی میں ہماری رہ نمائی فرمائیں ۔
جواب

متعدد صحیح احادیث میں صراحت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سونے کے زیورات کا استعمال مردوں کے لیے حرام اور عورتوں کے لیے حلال قرار دیا ہے۔ مثلاً حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: ’سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہیں ۔‘ (نسائی: ۵۱۴۴ تا ۵۱۴۷۹) علامہ البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک آدمی کو سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’تم میں سے کوئی شخص جان بوجھ کر آگ کا انگارا اپنے ہاتھ میں پہن لیتا ہے۔‘ (مسلم: ۲۰۹۰) ایک موقع پر شاہِ حبشہ نجاشی نے آپؐ کی خدمت میں کچھ تحائف بھیجے، جن میں سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی۔ آپؐ نے اسے اپنی نواسی کو دے دیا اور فرمایا: ’بیٹی! لو اسے پہنو‘ (ابو داؤد: ۴۲۳۵) علامہ البانیؒ نے اسے حسن الاسناد کہا ہے۔
اسی کے عین مطابق صحابہ و صحابیات کا عمل تھا۔ چناں چہ صحابیات سونے کے زیورات کا استعمال کرتی تھیں اور صحابہ اپنے گھر والوں اور ماتحتوں کو سونے کے زیورات پہناتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جو اتباع سنت کے معاملے میں بہت سخت تھے، اپنی بیٹیوں اور لونڈیوں کو سونے کے زیورات پہناتے تھے۔ (موطا: ۱۰۵۰) ام المومنین حضرت عائشہؓ خود سونے کی انگوٹھی پہنا کرتی تھیں ۔ (امام بخاریؒ نے اس کا تذکرہ اپنی صحیح، کتاب اللباس، باب الخاتم للنساء میں تعلیقًا اور ابن سعد نے الطبقات میں موصولاً کیا ہے)۔ اور وہ اپنی بھانجیوں کو بھی سونے کے زیورات پہنایا کرتی تھیں ۔ (احمد فی مسائل عبد اللہ ص: ۱۴۵) علامہ البانی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
ایک مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ عید کے موقع پر عورتوں کے مجمع میں تقریر فرمائی تو انھیں صدقہ و خیرات پر ابھارا۔ اس وقت حضرت بلالؓ بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔ آپؐ کا وعظ سن کر عورتیں اپنے زیورات اتار کر حضرت بلالؓ کے حوالے کرنے لگیں ۔ (بخاری ۹۸، ۹۷۸، ۹۷۹، ۱۱۴۳، ۱۱۴۴، ۱۱۵۹) اس حدیث کی مختلف روایتوں میں عورتوں کے زیورات کے لیے جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں : فتخ (پا زیب)، خواتیم (انگوٹھیاں )، قرط (بالیاں )، قلب (کنگن)، خرص (کڑے) اور سخاب (ہار)۔ اسی بنا پر جمہور علماء نے عورتوں کے لیے سونے کے ہر طرح کے زیورات کا استعمال جائز قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے: ’’جن احادیث میں سونے کی انگوٹھی پہننے کی ممانعت آئی ہے، ان کا تعلق مردوں سے ہے، عورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ اس بات پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ اس کا استعمال عورتوں کے لیے جائز ہے۔‘
(فتح الباری، ۱۰/۳۱۷)
اس کے بالمقابل کچھ احادیث ایسی ہیں جن میں سونے کی مطلق حرمت مذکور ہے، یا ان میں سونے کے زیورات استعمال کرنے والی عورتوں کو عذاب جہنم کی وعید سنائی گئی ہے اور ان کے بہ جائے چاندی کے زیورات پہننے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طرح بعض احادیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے گھر والیوں کو زیورات استعمال کرنے سے روکا ہے۔ ان احادیث میں کچھ ضعیف ہیں اور جو صحیح یا حسن ہیں وہ چوں کہ درج بالا احادیث سے ٹکراتی ہیں ، اس لیے ان کی صحیح توجیہہ اور دونوں کے درمیان تطبیق دینے کی ضرورت ہے۔
جن احادیث میں سونے کی مطلق حرمت بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں :
’’بربادی ہو سونے چاندی کے لیے۔‘‘ (احمد، ۵/۳۶۶)
’’جس نے سونے کا زیور پہنا، اس پر اللہ جنت میں سونے کا زیور حرام کردے گا۔‘ ‘
(احمد، ۲/۱۶۶، ۲۰۸، ۲۰۹)
’’کاش! میری امت سونے کے زیورات کا استعمال نہ کرتی‘‘ (احمد، ۳/۲۰۹، ۵/۱۵۳، ۱۵۵، ۱۷۸، ۳۶۸)۔
’’جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ ریشم اور سونا نہ پہنے‘‘ (حاکم: ۴/۱۹۱، اسے احمد اور طبرانی نے بھی روایت کیا ہے۔ علامہ البانیؒ نے اسے حسن قرار دیا ہے)۔
’’جس شخص نے سونے کا چمک دار زیور پہنا یا کسی کو پہنایا اسے روز قیامت اس کے ذریعے داغا جائے گا۔‘ (احمد: ۴/۲۲۷)۔
’ ’رسول اللہ ﷺ نے ریشم اور سونے کا استعمال کرنے سے منع کیا ہے۔‘ ‘(نسائی: ۵۱۵۱ تا ۵۱۶۰، احمد: ۴/ ۱۳۲)۔
’’رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کیا ہے۔‘‘
(بخاری: ۵۸۶۴، مسلم: ۲۰۸۹)
ان احادیث کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کا خطاب مردوں سے ہے۔ ان میں مردوں کا حکم بیان کیا گیا ہے، عورتیں ان سے مستثنیٰ ہیں ۔
کچھ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو بھی سونے کا زیور استعمال کرنے سے منع کیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
’’تباہی و بربادی ہے عورتوں کے لیے دو سرخ چیزوں کی وجہ سے: سونا اور زعفرانی کپڑا۔‘‘ (ابن حبان، بیہقی، شعب الایمان) علامہ البانیؒ نے اس کی سند کو جید کہا ہے اور اس حدیث کو اپنی کتاب سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں درج کیا ہے۔ انھوں نے علامہ منادیؒ کے حوالے سے اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس سے مراد تمام عورتیں نہیں ہیں ، بل کہ یہ بات ان عورتوں کے بارے میں کہی گئی ہے جو سونے کے زیورات اور زعفرانی کپڑے پہن کر اور خوب بناؤ سنگار کرکے بے پردہ ہوکر اور مٹکتی اتراتی ہوئی گھر سے باہر نکلتی ہیں اور فتنے پھیلاتی ہیں ۔‘
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، مکتبۃ المعارف الریاض، ۱۹۹۵/۱۴۱۵ھ، ۱/۶۶۴)
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ کی مجلس میں موجود تھا۔ ایک عورت آئی اور اس نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! سونے کے کنگنوں کو استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ آگ کے کنگن ہیں ۔ اس نے پھر دریافت کیا: اور سونے کا ہار؟ آپؐ نے فرمایا: وہ آگ کا ہار ہے۔ اس نے پھر دریافت کیا: اور سونے کی بالیاں ؟ فرمایا: وہ آگ کی بالیاں ہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس وقت وہ عورت سونے کے دو کنگن پہنے ہوئے تھی، یہ سن کر اس نے انھیں اتار ڈالا۔ اس موقع پر اس نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! عورت اگر اپنے شوہر کے لیے زیب و زینت اختیار نہ کرے تو وہ اسے ناپسند کرنے لگے گا۔ آپؐنے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی ایسا کیوں نہیں کرتی کہ چاندنی کی بالیاں بنا لے، پھر انھیں زعفران یا عبیر سے رنگ لے۔‘‘
یہ حدیث سنن نسائی (۵۱۴۲) اور مسند احمد (۲/۴۴۰) میں آئی ہے، لیکن اس کے ایک راوی ابو زید مجہول ہیں ، جیسا کہ التقریب میں مذکور ہے۔ اس لیے یہ ضعیف ہے۔
(آداب الزفاف فی السنۃ المطہرۃ، محمد ناصر الدین الالبانی، المکتب الاسلامی، بیروت، ۱۹۴۹ء، ص: ۱۶۵)
ایک حدیث حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جو عورت سونے کا ہار پہنے گی اللہ عزوجل روز قیامت اس کے گلے میں آگ کا ہار پہنائے گا اور جو عورت اپنے کان میں سونے کی بالی پہنے گی، اللہ اس کے کان میں آگ کی بالی پہنائے گا۔‘‘ یہ حدیث سنن ابو داؤد (۴۴۳۸) اور سنن نسائی (۵۳۱۹) میں مروی ہے۔ لیکن اس کے ایک راوی محمود بن عمر مجہول ہیں ، جیسا کہ ذہبی نے بیان کیا ہے، اس لیے یہ ضعیف ہے۔
(آداب الزفاف، حوالہ سابق)
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنی ازواج مطہرات اور بنات طاہرات کو سونے کے زیورات پہننے سے منع کرتے تھے اور ان کے بہ جائے چاندی کے زیورات استعمال کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن دیکھے تو فرمایا: ’’ان کو اتاردو اور ان کی جگہ چاندی کے کنگن استعمال کرو اور انھیں زعفران سے رنگ لو۔‘‘ (نسائی: ۵۱۴۳) اسے خطیب، بزار، طبرانی اور سرقسطی نے بھی روایت کیا ہے۔ علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے ایک مرتبہ سونے کا ایک زیور (شعائر) اپنے گلے میں ڈال لیا۔ رسول اللہ ﷺ گھر میں داخل ہوئے تو آپؐ نے منہ پھیر لیا۔ حضرت ام سلمہؓ نے توجہ دلائی کہ دیکھیے، کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسی سے تو منہ پھیر رہا ہوں ۔ یہ سن کر ام المومنین نے اسے توڑ ڈالا۔ تب آپؓ نے ان کی طرف رخ کیا۔ اس موقع پر آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’تم میں سے کسی کا کیا بگڑ جائے گا، اگر وہ چاندی کے بُندے استعمال کرے اور انھیں زعفران سے رنگ لے۔‘‘ (احمد: ۶/۳۱۵) طبرانی نے بھی اس کی روایت کی ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے ملاقات کے لیے ان کے گھر تشریف لے گئے۔ ان کے گلے میں سونے کی ایک زنجیر پڑی ہوئی تھی۔ انھوں نے اسے اپنے ہاتھ میں لے کر کہا: اسے حسن کے ابو (یعنی حضرت علیؓ) نے مجھے تحفے میں دیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اے فاطمہ! کیا تمھیں اس بات سے خوشی ہوگی کہ لوگ کہیں کہ محمد کی بیٹی کے ہاتھ میں آگ کی زنجیر ہے۔‘‘ یہ فرما کر آپؐ رکے نہیں اور واپس چلے آئے۔ حضرت فاطمہؓ نے وہ زنجیر بیچ دی اور جو پیسے ملے اس سے ایک غلام خرید کر آزاد کردیا۔ آپؐ کو پتا چلا تو فرمایا: ’’اللہ کا شکر ہے جس نے فاطمہ کو آگ سے بچا لیا۔‘‘
یہ حدیث سنن نسائی (۵۱۴۰) اور مسند احمد (۵/۳۷۸) میں آئی ہے۔ طیالسی، حاکم، طبرانی اور ابن راہویہ نے بھی اس کی روایت کی ہے۔ شیخ اسماعیل انصاری، علامہ شعیب الارناؤوط اور مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن علامہ البانیؒ اسے صحیح کہتے ہیں ۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ۱/۷۷۲) انھوں نے اپنی کتاب آداب الزفاف کے نئے ایڈیشن کے مقدمے میں اسے ضعیف قرار دینے والوں کا رد کیا ہے۔
ایک روایت میں حضرت عقبہ بن عامرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں کو زیور اور ریشم کے استعمال سے منع کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’’اگر تم لوگ جنت کا زیور اور ریشم چاہتے ہو تو دنیا میں انھیں نہ پہنو۔‘‘
اس حدیث کو نسائی (۵۱۳۶) ابن حبان (۱۴۶۳) حاکم (۴/۱۹۱) اور احمد (۴/۱۴۵) نے روایت کیا ہے۔ علامہ البانیؒ نے اسے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (۱/۶۶۳) میں درج کیا ہے۔
درج بالا احادیث کی توجیہہ یہ کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اپنے گھر والوں (ازواج و بنات) کو سونے کے زیورات استعمال کرنے سے منع کرنا اور ان کے بہ جائے چاندی کے زیورات استعمال کرنے کی ہدایت کرنا ان کے لیے سونے کی حرمت کے سبب نہیں تھا، بل کہ آپؐ کی شدید خواہش تھی کہ آپؐ کے قریبی افراد بھی مال و دولت کی چمک دمک سے دور رہیں ۔ علامہ سندیؒ نے حاشیۂ نسائی میں لکھا ہے: ’اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنے گھر والوں کو مطلق زیور سے منع کرتے تھے، چاہے وہ سونے کا ہو یا چاندی کا۔ شاید یہ ان کے ساتھ مخصوص ہے۔ (بہ حوالہ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، البانیؒ، ۱/۶۶۳)
کچھ اور احادیث ہیں جن میں مطلق سونے کے زیورات استعمال کرنے پر عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ مثلاً ایک حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’جو شخص اپنے محبوب کو آگ کا کڑا (حلقہ) پہنانا چاہے وہ اسے سونے کا کڑا پہنادے، جو شخص اسے آگ کا ہار (طوق) پہنانا چاہے وہ اسے سونے کا ہار پہنا دے اور جو شخص اسے آگ کا کنگن (سوار) پہنانا چاہے وہ اسے سونے کا کنگن پہنادے، اس کے بہ جائے تمھیں چاہیے کہ چاندی کا زیور پہناؤ۔‘ (ابو داؤد: ۲۴۳۶، احمد:۲؍ ۳۷۸)
اس حدیث کو علامہ البانیؒ نے حسن قرار دیا ہے اور اس کی بنا پر اور اس مضمون کی دیگر احادیث کے پیش نظر ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ عورتوں کے لیے سونے کے زیورات کا مطلق استعمال جائز نہیں ہے، بل کہ بعض مخصوص طرح کے سونے کے زیورات (حلقہ، طوق اور سوار) ان کے لیے بھی حرام ہیں ۔
کہا گیا ہے کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے، اس لیے کہ اس کے ایک راوی (اسید) میں ضبط کے معاملے میں کمی تھی۔ علامہ البانیؒ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ جو کچھ کمی ہے وہ متعدد شواہد و متابعات سے دور ہوجاتی ہے۔ اس لیے یہ حدیث حسن ہے۔ ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ اس حدیث کا خطاب مردوں سے ہے۔ لیکن البانیؒ نے اس کی بھی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ حدیث کا خطاب عورتوں سے ظاہر ہے، اس لیے کہ اس میں چاندی کے زیور استعمال کرنے کا حکم ہے اور چاندی کا زیور مردوں کے لیے جائز نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب آداب الزفاف میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے اور ان لوگوں پر نقد کیا ہے جو سونے کے زیورات کو عورتوں کے لیے مطلق حلال قرار دیتے ہیں ۔
(آداب الزفاف، ص: ۱۵۱- ۱۵۷، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ۱/۶۶۲)
اس معاملے میں علامہ البانیؒ کا موقف کم زور معلوم ہوتا ہے۔ ابتدا میں جو احادیث نقل کی گئی ہیں ، ان کی رو سے سونے کے ہر طرح کے زیورات کا استعمال عورتوں کے لیے جائز ہے۔ جن احادیث میں سونے کے زیورات پر عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، ان کی ایک توجیہہ یہ کی گئی ہے کہ یہ احادیث ابتدائی زمانے کی ہیں اور منسوخ ہیں ۔ کیوں کہ دیگر احادیث سے عورتوں کے لیے سونے کے زیورات کے استعمال کا جواز ثابت ہے۔ دوسری توجیہہ یہ کی گئی ہے کہ یہ وعید ان زیورات کے بارے میں ہے جن کی زکوٰۃ نہ ادا کی گئی ہو۔ (معالم السنن شرح سنن ابی داؤد، ابو سلیمان الخطابی، المطبعۃ العلمیۃ حلب، ۱۹۳۳، ۴/۲۱۵- ۲۱۶، الترغیب والترہیب، حافظ منذری، دار الحدیث قاہرہ۔ ۱۹۸۷ء، ۱/۵۵۷) اس توجیہہ کی تائید بعض ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں زیورات کی زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ادا نہ کرنے کی صورت میں عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ چند احادیث درج ذیل ہیں :
حضرت اسماء بنت یزیدؓ فرماتی ہیں : ’’میں اپنی خالہ کے ساتھ خدمت ِ نبویؐ میں حاضر ہوئی۔ ہم دونوں سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے۔ آپؐ نے ہم سے دریافت فرمایا: کیا تم اس کی زکوٰۃ نکالتی ہو؟ ہم نے عرض کیا: نہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تمھیں اس کا ڈر نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے گا۔ ان کی زکوٰۃ نکالا کرو۔‘‘ (احمد، ۶/۴۶۱) اس مضمون کی حدیث دیگر کتب حدیث میں بھی مروی ہے۔ مثلاً : (ابو داؤد: ۱۵۶۳، ترمذی: ۶۳۷، نسائی: ۲۴۸۱)
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں سونے کے چمکیلے زیورات استعمال کرتی تھی۔ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: کیا یہ ’کنز‘ ہے (جس کے رکھنے پر عذاب جہنم کی وعید سنائی گئی ہے) آپؐ نے فرمایا: اگر یہ نصاب ِ زکوٰۃ تک پہنچ جائے اور اس کی زکوٰۃ ادا کردی جائے تو کنز نہیں ہے۔‘ (ابو داؤد: ۱۵۶۴۔ علامہ البانیؒ نے اسے حسن قرار دیا ہے) اور یہ بات صرف سونے کے زیورات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بل کہ بعض روایات کے مطابق آں حضرت ﷺ نے چاندی کے زیورات کے سلسلے میں بھی یہی ہدایت دی ہے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے میرے ہاتھوں میں چاندی کے کڑے (فتخات) دیکھے تو فرمایا: عائشہؓ! یہ کیا؟ میں نے عرض کیا: انھیں میں نے آپ کے لیے زینت اختیار کرنے کے مقصد سے پہنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم ان کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ میں نے عرض کیا: نہیں ، یا کبھی کبھی۔ فرمایا: یہ عذاب جہنم کے لیے کافی ہیں ۔ (ابو داؤد: ۱۵۶۵)
ایک توجیہہ یہ کی گئی ہے کہ زیورات کے سلسلے میں اصلاً ریا کاری اور دکھاوا ممنوع ہے۔ خواہ وہ سونے کے ہوں یا چاندی کے۔ (الترغیب والترہیب: ۱/۵۵۸) چوں کہ چاندی کے زیورات عموماً سستے ہوتے ہیں اس لیے عورتیں ان میں دکھاوا نہیں کرتیں اور سونے کے زیورات عموماً بہت مہنگے ہیں ، اس لیے عورتیں عموماً اپنی شان بگھارنے کے لیے ان کا دکھاوا کرتی ہیں ۔ حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے اور اس پر عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
اس کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عورتوں کی جماعت! کیا تم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ چاندی کے زیورات استعمال کرو۔ تم میں سے جو عورت بھی سونے کا زیور پہنے گی اور اس کا دکھاوا کرے گی اس کو عذاب دیا جائے گا۔‘‘ (ابو داؤد: ۴۲۳۷، نسائی: ۵۱۳۷، ۵۱۳۸) اس کی سند میں ایک راوی ربعی بن خراش کی بیوی مجہول ہے۔ اس لیے علامہ البانیؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
بعض محدثین اس توجیہ کے حق میں ہیں ۔ امام نسائی نے اس مضمون کی چند احادیث پر یہ ترجمۃ الباب (عنوان) قائم کیا ہے: باب الکراھیۃ للنساء فی اظہار الحلی والذھب (اس چیز کا بیان کہ عورتوں کے لیے زیورات اور سونے کی نمائش مکروہ ہے) اور امام دارمیؒ نے درج بالا حدیث پر یہ عنوان لگایا ہے: باب فی کراھیۃ اظہار الزینۃ (اس چیزکا بیان کہ عورتوں کے لیے زینت کا اظہار مکروہ ہے)
مولانا محمد زکریاؒ نے اپنی کتاب فضائل صدقات میں حضرت اسماء بنت یزیدؓ سے مروی حدیث، جس میں سونے کا ہار یا بالی پہننے والی عورت کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، نقل کی ہے اور اس کی تشریح کے ضمن میں اس مضمون کی دیگر احادیث ذکر کی ہیں ، جنھیں اوپر نقل کیا جاچکا ہے اور ان کی توجیہات کی ہیں ۔ یہاں احادیث کو حذف کرتے ہوئے ان کی توجیہات کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
’اس حدیث شریف سے عورتوں کے لیے بھی سونے کا پہننا ناجائز اور حرام معلوم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض علماء نے اس کو ابتدائے اسلام پر محمول کیا ہے۔ اس لیے کہ سب علماء کے نزدیک دوسری احادیث کی بنا پر عورتوں کے لیے سونے چاندی کا زیور جائز ہے، لیکن بعض علماء نے اس حدیث کو اور اس جیسی دیگر احادیث کو زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر محمول فرمایا ہے۔ بعض علماء نے ان روایات کی وجہ سے جن میں زکوٰۃ کا ذکر نہیں ہے اور سونے چاندی میں فرق کیا گیا ہے، یہ بھی فرمایا ا ہے کہ اس سے تکبر، تفاخر اور اظہار مراد ہے اور یہ بات عام طور سے مشاہدے میں آتی ہے کہ عورتوں کے یہاں چاندی کا زیور، بالخصوص جو عورتیں اپنی جہالت سے اپنے کو اونچے خاندان کی سمجھتی ہیں ، کچھ وقعت اور اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ چاندی کے زیور کو کوئی اظہار یا تفاخر کی چیز نہیں سمجھتیں ۔ ان کے ہاتھوں میں چاندی کے کنگن ہوں تو ذرا بھی ان کو اس کے اظہار کا داعیہ پیدا نہ ہو، لیکن سونے کے کنگن ہوں تو بے وجہ پچاس مرتبہ مکھی اڑانے کے بہانے سے ہاتھ ہلائیں گی۔ بیس مرتبہ دو پٹہ درست کرنے کے واسطے ہاتھ کو پھیریں گی اور اس حرکت سے محض دوسرے پر تفاخر مقصود ہوتا ہے، اپنے زیور کو دکھانا ہوتا ہے۔ لہٰذا دونوں باتوں کا اہتمام بہت ضروری ہے کہ زیور سے تفاخر اور تکبر اور اس کا اظہار ہرگز نہ ہونا چاہیے اور اس کی زکوٰۃ بہت اہتمام سے ادا کرنی چاہیے اور دونوں میں سے اگر کوئی سی ایک بات کا بھی لحاظ نہ رکھا جائے تو اپنے آپ کو عذاب کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔‘
(فضائل صدقات، حصہ اول، ص: ۲۵۷-۲۵۹)
زیورات کے مسئلے پر بہ طور خلاصہالموسوعۃ الفقھیۃ کویت کی درج ذیل عبارت نقل کی جاتی ہے:
’فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت کے لیے سونے چاندی کے ہر طرح کے زیورات کا استعمال جائز ہے۔ مثلاً گلوبند، ہار، انگوٹھی، کنگن، پازیب، تعویذ، بازو بند، پٹّا، مالا اور ہر وہ چیز جو گلے میں پہنی جاتی ہے اور جسے عورتیں عموماً استعمال کرتی ہیں اور وہ اسراف کی حد کو نہ پہنچے یا اس میں مردوں سے مشابہت نہ ہو۔‘ (الموسوعۃ: ۱۸/۱۱-۱۲)