عورت کا حقِ ملکیت

,

میری شادی کو دوبرس ہوگئے ہیں۔ میرےشوہر بھی ملازمت کرتے ہیں اور میں بھی۔ میری ملازمت شادی سے قبل سے ہے۔ رشتہ طے کرتے وقت میرے سسرال والوں کو اس کا علم تھا،اس کے باوجودانھوں نے رشتہ کرلیا۔ نکاح کے بعد انھوں نے مجھے ملازمت جاری رکھنے کی اجازت دے دی،لیکن چند ماہ کے بعد ہی وہ مطالبہ کرنے لگے کہ میں اپنا پورا مشاہرہ انھیں دے دیا کروں ۔میں نے کہا کہ پھر میرے ذاتی اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟اس پر انھوں نے اس حدتک اجازت دی کہ مشاہرہ کا ایک چوتھائی حصہ میں رکھ لوں، باقی ان کے حوالے کردوں ۔میں ایسا کرنے لگی۔کچھ دنوں کے بعدمیں نے دریافت کیا کہ میرے مشاہرے کی رقم کہاں خرچ کرتے ہیں؟ لیکن یہ بتانے سے انھوں نے انکار کردیا کہ تمہیں اس سے کیاغرض؟ہم جہاں چاہیں خرچ کریں۔میں یہ جانناچاہتی ہوں کہ عورت جو کچھ کمائے، کیا اسے اپنے پاس رکھنے کا حق نہیں ہے؟کیا شادی شدہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی مکمل کمائی یا اس کا کچھ حصہ ضرور شوہر یا سسرال والوں کے حوالے کردے؟

جواب

 اسلام نے عورت کو ملکیت کا حق دیا ہے ۔اسے اپنے ماں باپ اوررشتے داروں سے جو کچھ ملے،یاوہ جو کچھ خودکمائے، اس کی مالک سمجھی جائے گی اوراس میں آزادانہ تصرف کرنے کا اسے حق حاصل ہوگا۔ اس کی آزاد مرضی کے بغیر کسی کو اسے ہتھیالینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ اسلام کا ایک امتیاز ہے۔ یورپ میں نشأۃ ثانیہ کے بعد بھی عورت حق ِ ملکیت سے محروم تھی۔ اس کے مال پر نکاح سے قبل باپ کا اور نکاح کے بعد شوہر کا قبضہ رہتا تھا۔ انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں انگلینڈ نے اور بیسویں صدی کے اوائل میں دیگر یورپی ممالک نے عورت کے حق ِ ملکیت کے بارے میں قانون سازی کی۔

نکاح کے نتیجے میں عورت مہر کی مالک بنتی ہے۔ قرآن مجید میں صاف الفاظ میں حکم دیاگیا ہے کہ عورتوں کو ان کے مہردو، البتہ اگر وہ اپنی مرضی سے مہر کا کچھ حصہ معاف کردیں تو اسے اپنے کام میں لانا تمہارے لیے جائز ہے

وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃٍ۝۰ۭ فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَكُلُوْہُ ہَنِيْۗـــــًٔـا مَّرِيْۗــــــًٔـا                    (النساء۴)

’’اورعورتوں کو ان کے مہرخوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) اداکرو، البتہ اگروہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمھیں معاف کردیں تو اسے تم خوشی سے کھاسکتے ہو۔‘‘

وراثت کا مستحق صرف اولادِ نرینہ کو سمجھا جاتاتھا، عورتوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتاتھا۔ اسلام نے بہ تاکید حکم دیا کہ اس میں جس طرح مردوں کا حصہ ہے اسی طرح عورتوں کا بھی حصہ لگایاجائے، چاہے مال کم ہویا زیادہ اور یہ تقسیم اختیاری نہیں، بلکہ لازمی ہے۔ (النساء۷) قرآن مجید میں تفصیل سے مال وراثت میں عورتوں کے حصے بتائے گئے ہیں۔ ان میں ماں ،بیوی اور بیٹی ایسے وارث ہیں، جو کسی بھی صورت میں وراثت سے محروم نہیں ہوتے۔

اسلام میں عورتوں کو روزی کمانے کی ذمے داری سے مستثنیٰ رکھاگیا ہے اوران کی کفالت مردوں پرلازم کی گئی ہے ۔ لیکن اگر کوئی عورت کسبِ معاش کرنا چاہے تواسے اس کی اجازت ہے۔ وہ نکاح سے قبل اپنے باپ یا ولی اور نکاح کے بعد اپنے شوہر کی اجازت سے معاشی سرگرمی انجام دے سکتی ہے۔ وہ تجارت کرسکتی ہے، صنعت وحرفت میں مصروف ہوسکتی ہے، کسی کمپنی میں اپنا شیئر لگاسکتی ہے، یا ملازمت اختیارکرسکتی ہے ، لیکن بہر حال وہ جو کچھ کمائے گی اس کی خود مالک ہوگی، شوہر یا کسی اور کواس کی کمائی پر قبضہ جمانے کا حق نہیں ہوگا اور گھر اور بچوں کے اخراجات کی تکمیل اس پر لازم نہ ہوگی۔ ماں باپ، شوہر یا دوسرے رشتے دار حسب ِ موقع عورت کو مناسب مشورہ تودے سکتے ہیں،لیکن اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتے۔ وہ اپنے مال کے بارے میں اپنے طورپر کوئی بھی فیصلہ لینے کی پورے طورپر مجاز ہے۔

عورت جو کچھ کمائے اس میںتصرف کرنے اور اسے خرچ کرنے کا وہ پورا اختیار رکھتی ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کے کچھ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں ایک وصف یہ بھی ہے

وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ                               (الاحزاب۳۵)

’’اور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں۔‘‘

اللہ کے رسول ﷺ جب اپنے عمومی خطابات میں لوگوں کو صدقہ وخیرات پرابھارتے تھے تو مردوں کے ساتھ عورتیں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔

مسلم معاشرہ میں عورتوں کو عملاً حق ملکیت سےمحروم رکھا جاتاہے۔ انھیں وراثت میں حصہ دیاجاتا ہے نہ وہ مہرپاتی ہیں۔ اگر وہ ملازمت کرتی ہیں تو ان کی کمائی پر شوہر اورسسرال والے قبضہ کرلیتے ہیں اور عورتوں کو آزادانہ اس میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ ایسا کرنا غلط اور غیرشرعی ہے ۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو عورتوں کے شرعی حقوق سے آگاہ کیاجائے اور خوش دلی سے انھیں ادا کرنے کی تلقین کی جائے۔