جواب
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۳۲ۚ
(الاحزاب۳۲:)
’’اے پیغمبر کی بیویو! تم اورعورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم پر ہیز گار رہنا چاہتی ہو تو (کسی اجنبی شخص سے ) نرم نرم باتیں نہ کرو ، تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے ، کوئی امید (نہ ) پیدا کرے ، اور دستورکے مطابق بات کیا کرو۔‘‘
اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات سے ہے ، لیکن مفسرین کرام نے بیان کیا ہے کہ تبعاً امت کی تمام عورتیں بھی مخاطب ہیں ۔ (تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ، طبع دیوبند: ۳؍۳۶۱)
قابلِ غور یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمان عورتوں کو اجنبی مردوں سے بات چیت کرنے سے بالکلیہ نہیں منع کیا گیا ہے ، بلکہ معروف طریقے سے بات چیت کی اجازت دی گئی ہے ، البتہ آوازمیں لوچ پیدا کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
کیا عورت کی آواز کا پردہ ہے ؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض فقہاء اس کے قائل ہیں ، جب کہ بعض دوسرے ا س کا انکار کرتے ہیں ، جن میں شافعی فقہاء خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔ الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے :
أما صوت المرآۃ فلیس بعورۃ عندالشافعیۃ، ویجوز الاستماع الیہ عند امن الفتنۃ
(الموسوعۃ الفقہیۃ ، کویت: ۳۱؍۴۷)
’’رہی عورت کی آواز تو شوافع کے نزدیک اسے چھپانے کی ضرورت نہیں ۔ فتنے کا اندیشہ نہ ہوتو اسے سنا جاسکتا ہے ۔‘‘
جہاں تک مردوں اور عورتوں کے مشترکہ اجتماع میں کسی خاتون کے ذریعے درسِ قرآن ، درسِ حدیث یا تقریر کرنے کا معاملہ ہے تو راقم سطور اگرچہ اس کے جواز کی رائے رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے نزدیک عام حالات میں اس سے بچنا چاہیے۔ شدید ضرورت کے تحت ہی ایسا کوئی موقع فراہم کرنا چاہیے۔ اگر دینی اجتماعات میں تقریر کرنے کے لیے باصلاحیت مرد موجود ہوں تو خواتین کے ذریعے اسٹیج سے یا پس پردہ درس یا تقریر کروانے سے اجتناب کرنا اولیٰ ہے ۔
اس موضوع پر زندگی نو میں اس سے پہلے بھی ’رسائل ومسائل ‘ کے تحت جواب دیا جاچکا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے زندگی کے عام فقہی مسائل ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی ، ۲۰۱۱ء ، جلد دوم ، ص ۱۲۲۔ ۱۳۵