جواب
نکاح کا مقصد جنسی آسودگی اور توالد وتناسل کے ساتھ انفرادی اورسماجی زندگی میں سکون وطمانینت اورباہم محبت ومودّت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۰ۭ (الروم۲۱:)
’’ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نےتمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں ، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اوررحمت پیدا کردی ‘‘۔
اسی لیے زوجین کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق خوش دلی سے ادا کریں ، ایک د وسرے کا خیال رکھیں اوراگر کچھ شکایت پیدا ہوجائے تو اسے انگیز کرنے کی کوشش کریں ۔ شوہر سے کہا گیا کہ اگر اسے بیوی کا کوئی رویہ یا اس کا مجسم وجود نا پسند ہو تو اسے یہ سوچ لینا چاہیے کہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۔ ‘‘ (النساء۱۹:) بیوی سے کہا گیا کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے اور اس کی نافرمانی سے بچے (النساء۳۴:)
اگرزوجین کے درمیان ہم آہنگی میں فرق آنے لگے اورمنافرت بڑھنے لگے تو قرآن نے اس کا حل بھی بتایا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ پہلے زوجین آپس میں اپنی شکایات دور کرنے کی کوشش کریں ۔ شوہر چوں کہ گھر کا سربراہ ہے ، اس لیے اس کی ذمے داری بڑھ کر ہے۔ اگر بیوی کی جانب سے سر کشی کا مظاہرہ ہونے لگے تو وہ اس کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش کرے۔ (النساء: ۳۴) لیکن اگروہ آپس میں اپنے معاملات نہ سلجھاسکیں تو خاندان کے بڑوں کی ذمےداری ہے کہ وہ مداخلت کریں ۔ شوہر اوربیوی دونوں کی طرف سے حَکم مقرر ہوں ا وروہ مصالحت کی کوشش کریں ۔ اگروہ اصلاح چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور موافقت کی کوئی صورت نکال دے گا۔ (النساء: ۳۵)
لیکن اگر زوجین کے درمیان منافرت اس حدتک بڑھ جائے کہ ان کے لیے ایک ساتھ رہ کر زندگی گزارنا ممکن نہ رہے تو ان کا علٰیحد ہ ہوجانا ہی بہتر ہے ۔ ایک ساتھ رہتے ہوئے کڑھ کڑھ کر زندگی گزارنا اسلام پسندنہیں کرتا۔ علٰیحدگی کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں :
۱- بیوی ساتھ رہنا چاہتی ہو ، لیکن شوہر اسے اپنے ساتھ رکھنے پر آمادہ نہ ہو ۔ اس صورت میں شوہر طلاق دے دے ۔
۲- بیوی شوہر کے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہو اور شوہر کی خواہش اسے علٰیحدہ کرنے کی نہ ہو ، لیکن بیوی کے ناپسندیدہ رویے اورعدم رضا کو دیکھتے ہوئے اور اس کی شوہر سے علٰیحدہ ہونے کی خواہش کے پیش نظر شوہر اسے طلاق دے دے ۔
مذکورہ دونوں صورتوں میں شوہر کو مہر دینا ہوگا اوراگر دے چکا ہے تو اسے واپس لینے کا حق نہ ہوگا۔
۳- بیوی شوہر سے مطالبہ کرے کہ وہ اسے طلاق دے کر علٰیحدہ کردے ۔ اسے خلع کہتے ہیں ۔ اس صورت میں عورت اپنا حقِ مہر کھودیتی ہے ۔ اگروہ مہر پاچکی ہے تو اسے واپس کرنا ہوگا اوراگر مہر اب تک اسے نہیں ملا ہے تو وہ مہر کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ بیوی کے مطالبے پر شوہر طلاق دے دے گا ۔ اس طرح علٰیحد گی انجام پائے گی۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ بیوی یک طرفہ طور پر کہے کہ میں نے خلع لے لیا اوراپنے میکے یا شوہر کے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ جا بیٹھے اورسمجھ لے کہ شوہر سے اس کی علٰیحدگی ہوگئی۔
۴- اگر بیوی شوہر سے علٰیحدگی پر اصرار کرے، لیکن شوہر کسی بھی صورت میں اسے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہوتو بیوی کودار القضا ء سے رجوع کرنا چاہیے۔ قاضی کی ذمے داری ہے کہ وہ عورت کی شکایات سنے ، اس کے شوہر کوبھی بلا کر معاملہ سمجھنے کی کوشش کرے، ممکن ہو توتنازعہ کورفع دفع کرنے کی کوشش کرے، لیکن اگر دیکھے کہ عورت کسی بھی صورت میں شوہر کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں ہےتو نکاح کوفسخ کردے۔
فسخِ نکاح کا فیصلہ کرتے وقت قاضی کو بہت حکمت اوردانائی سےکام لینا چاہیے۔ نہ وہ جلد بازی کا مظاہرہ کرے کہ بیوی کی طرف سے خلع کا کیس دارالقضاء میں آتے ہی اس کا فیصلہ سنا دے ، نہ اسے ، بلا کسی خاص ـضرورت کے ، ٹالنے کی کوشش کرے ۔ اس لیے کہ فیصلہ میں غیر ضروری تاخیر کے سبب عورت مستقل اذیت کا شکار رہے گی او راس کے معصیت میں مبتلا ہوجانے کا بھی اندیشہ رہے گا۔
عورت کی طرف سے مطالبۂ خلع پر شوہر اسے طلاق نہیں دیتا اور جب وہ دارالقضاء سے رجوع کرتی ہے تو وہاں بھی اس کی داد رسی نہیں ہوتی اور اس کا فیصلہ آنے میں برسوں لگ جاتے ہیں ، اس صورت میں بعضـ عورتیں ملکی عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں ۔ اس کے نتیجے میں وہ ناگفتہ بہ صورتِ حال سامنے آتی ہے جسے آج کل ہندوستانی مسلمان جھیل رہے ہیں ۔ بعض عورتیں ملکی عدالتوں میں نہیں جانا چاہتیں اور دارالقضاء سے رجوع کرنےپر بھی انہیں اپنے مسئلے کا حل نہیں دکھائی دیتا تو وہ مخمصے کا شکار ہوجاتی ہیں ، مستقل نفسیاتی کرب میں مبتلا رہتی ہیں اور اسلامی شریعت سے ان کا اعتماد اُٹھنے لگتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ اسلام کے عائلی قوانین پر عمل کی جوبھی صورتیں ممکن ہوں انہیں روبہ عمل لانے کی کوشش کی جائے۔ بڑے پیمانے پر ملک کے مختلف حصوں میں شرعی پنچایتیں اور دارالقضاء قائم کیے جائیں ، انہیں صحیح طریقے سے منظم کیا جائے اوران میں آنے والے معاملات کو جلد نپٹائے جانے کویقینی بنایا جائے۔ اسی صورت میں اسلامی شریعت پر امت کے اعتماد کوبحال رکھا جاسکتا ہے۔