ایک عالمی شہرت کی حامل دینی شخصیت کا انتقال ہوا۔ مختلف ممالک میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھے جانے کی خبریں موصول ہوئیں۔ ہم نے بھی اپنے شہر میں اس کا اعلان کیا تو ہمارے رفقا کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ بعض نے کہا کہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔
براہ کرم وضاحت فرمادیں۔ کیا شرعی طور پر غائبانہ نماز جنازہ کی اجازت نہیں ہے؟ اگر ہے تو کب تک پڑھی جاسکتی ہے؟ کیا میت کی اس کے اپنے مقام پر نماز جنازہ پڑھے جانے سے قبل دوسرے مقام پر غائبانہ نماز پڑھی جاسکتی ہے؟
جواب
غائبانہ نماز جنازہ کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب شاہِ حبشہ نجاشی کے انتقال کی خبر ملی تو آپ صحابہ کرام کے ساتھ نکلے اور ایک جگہ جمع ہو کر اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ (بخاری۳۸۸۱، مسلم۹۵۱)
امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نجاشی کی نماز جنازہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن اس کا معاملہ اس کی قوم میں مشتہر نہ ہوا تھا۔ چوں کہ اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کا اہتمام فرمایا۔ یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بہت سے صحابہ کرام کی شہادت اور وفات کے واقعات پیش آئے۔ بئر معونہ اور بعض دیگر مواقع پر بڑی تعداد میں صحابہ کی شہادت ہوئی۔ غزوۂ موتہ میں آپ کے متعین کردہ تینوں سرداروں اور بہت سے مسلمانوں کی شہادت کا الم ناک واقعہ پیش آیا، لیکن آپ سے کبھی ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنی ثابت نہیں ہے۔ خود جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا حادثۂ فاجعہ پیش آیا تب بہت سے صحابۂ کرام دوٗر دراز علاقوں میں مقیم تھے، لیکن ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے کہیں آپ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ کو معمول بنالینا درست نہیں، البتہ کسی بڑی شخصیت کی وفات پر اگر غائبانہ نماز جنازہ پڑھ لی جائے تو نجاشی کے واقعہ سے اس کی گنجائش نکلتی ہے، جیسا کہ بعض فقہا نے اس کے جواز کی رائے دی ہے۔