جواب
شریعت میں مسافر کے لیے دوسہولتیں دی گئی ہیں ایک یہ کہ وہ نمازقصر کرسکتا ہے، یعنی چار(۴)رکعت والی نماز کے بجائے دو(۲)رکعت پڑھے گا اور دوسری یہ کہ وہ جمع بین الصلوٰتین کرسکتا ہے، یعنی ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے۔
کتنی مسافت پراور کتنی مدت تک قیام کرنے پر شرعی طورسے آدمی مسافر بنتا ہے؟ اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔حنفی مسلک میں ایک طرف سےاڑتالیس(۴۸)میل (۷۸؍کلومیٹر) کا سفر ہوتو آدمی’مسافر‘ ہوجاتاہے، البتہ اگراس نے کسی جگہ چودہ( ۱۴)دن سے زیادہ قیام کی نیت کرلی ہو تو وہ ’مقیم ‘ قرارپائے گا۔(اہل حدیث حضرات کے نزدیک مسافر قرارپانے کے لیے مسافت تیئس (۲۳)کلومیٹر اور مقیم قرارپانے کے لیے مدت چار(۴)دن ہے۔)
ایک آدمی نے حالت ِ سفر میں کہیں چودہ (۱۴)دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی تو وہ نماز قصر کرے گا۔ اب اگر وہ جس کام کے لیے رکا ہواتھا وہ نہیں ہوپایا، جس کی بناپر وہ باربار چند دن مزید ٹھہرنے کا ارادہ بڑھاتارہاتو اسے چاہے جتنے دن ٹھہرنا پڑجائے، وہ قصرنمازہی پڑھتا رہےگا۔
ایک آدمی نے کہیں پہنچ کرپندرہ(۱۵)دن ٹھہرنے کا ارادہ کرلیا تو وہ مقیم قرارپائے گا اور پوری نماز پڑھے گا، چاہے دوتین دن کے بعد ہی اس کا کام ہوجائے اوروہ اپنے وطن روانہ ہوجائے۔