اگر کوئی غیر مسلم دوست یا پڑوسی کسی تہوار یا خوشی کے موقع پر اپنے گھر ہماری دعوت کرے، یا کھانے پینے کی کوئی چیز ہمارے گھر بھیجے تو اس کا کیا جائے؟ اسے ہم اپنے استعمال میں لائیں؟ یا کسی غریب کو دے دیں؟ یا ضائع کردیں؟ براہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں۔
جواب
تکثیری معاشرے (Plural Society) میں سماجی تعلقات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ مختلف مذاہب کے لوگ باہم مل جل کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور اپنی خوشیوں میں بھی دوسروں کو شامل کرتے ہیں۔ اس طرح امن، سکون اور اپنائیت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ خوشی کے اظہار کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تحفے تحائف کا تبادلہ ہو، دعوتیں کی جائیں اور مٹھائیاں اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں تقسیم کی جائیں۔اسلام میں سماجی تعلقات کو بہتر طریقے سے برتنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ وہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے سماجی تعلقات رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ان سے میل جول رکھا جائے، ان کو تحفے دیے جائیں اور ان کے تحفے قبول کیے جائیں۔ ان کو کھانے کی دعوت دی جائے اور ان کی دعوت قبول کی جائے۔ان کے گھروں میں آمد ورفت رکھی جائے اور انھیں اپنے گھروں میں بلایا جائے۔ انھیں کھانے پینے کی چیزیں دی جائیں اور ان کی کھانے پینے کی چیزیں قبول کی جائیں۔ البتہ اسلام اپنے ماننے والوں کو حلال وحرام کی سختی سے پابندی کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ۰ۭ (المائدة۵)
’’آج تمہارے لیے تمام پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘
اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کے لیے طیبات (پاکیزہ چیزیں) حلال کی ہیں۔ قرآن میں دیگر مقامات پر اس کا بیان بھی ہے کہ وہ خبائث (ناپاک چیزیں) کیا ہیں جنھیں حرام قرار دیا گیا ہے۔ مثلًا سورۃ الانعام آیت (۱۴۵) میں صراحت کی گئی ہے کہ مردار، بہتا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جس کو ذبح کرتے وقت اس پر غیر اللہ کا نام لیا جائے، یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ شراب کو بھی حرام کیا گیا ہے (المائدۃ۹۱)۔
اسی طرح کھانے پینے کی وہ چیزیں بھی مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہیں جنھیں بتوں پر چڑھایا گیا ہو۔ ان کے علاوہ غیر مسلموں کی دی ہوئی دیگر کھانے پینے کی چیزیں استعمال کی جاسکتی ہیں۔
مشہور تابعی حضرت قتادہؒ کا قول ہے
لَا بَأسَ بِأكْلِ طَعْامِ المَجُوْسِیِّ مَا خَلَا ذَبِیْحَتَهٗ۔
(مصنف عبدالرزاق، ۶/۱۰۹)
’’مجوسی کا کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، ما سوا اُس کے ذبیحے کے۔‘‘
امام قرطبی لکھتے ہیں
ولا بأس بأكل طعام من لا كتاب له، كالمشركین، وعبدة الأوثان، ما لم یكن من ذبائحهم. (الجامع لأحكام القرآن، ۶/۷۷)
’’ان لوگوں کا کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے جن کے پاس کتاب نہیں ہے، جیسے مشرکین اور بت پرست، بشرطے کہ وہ ان کا ذبیحہ نہ ہو۔‘‘
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ کسی غیر مسلم کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے یا اس کی دی ہوئی کھانے پینے کی چیز استعمال کی جاسکتی ہے، اگر اس میں کوئی حرام چیز شامل نہ ہو، یا ان کے بتوں پر چڑھاوے کی نہ ہو۔