جواب
غزوۂ احزاب ہجرت ِ مدینہ کے پانچویں سال ہوا تھا۔ پورا عرب مدینہ پر چڑھ آیا تھا۔ یہود، مشرکین مکہ اور دیگر بہت سے قبائل اسلام اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کا تہیہ کیے ہوئے تھے۔ اس جنگ کی منصوبہ بندی مسلمانوں نے نہیں کی تھی کہ انھوں نے پہلے اس کے لیے پوری تیاری کرلی ہو، تمام وسائل فراہم کرلیے ہوں ، نفع و نقصان کا تخمینہ کرلیا ہو، سامان ِ رسد اور غذائی اشیاء کا ذخیرہ کرلیا ہو، اس کے بعد جنگ چھیڑی ہو، بلکہ جنگ ان پر مسلط کی گئی تھی۔
رسول اللہ ﷺ کو دشمنوں کے لشکر عظیم کی خبر ملی تو آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسیؓنے، جو کچھ عرصہ پہلے ہی ایمان لائے تھے، یہ تجویز پیش کی کہ فارس میں جب ہم اس طرح کے محاصرے کی صورت ِ حال سے دو چار ہوتے ہیں تو اپنے گرد خندق کھود لیتے ہیں ۔ یہ تجویز آپؐ کو بہت پسند آئی۔ آپؐ نے فوراً اس پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔ مدینہ کے بعض اطراف میں پہاڑیاں ، پتھریلی زمین اور کھجور کے باغات تھے۔ ادھر سے حملے کا اندیشہ نہ تھا۔ جو حصہ کھلا ہوا تھا ادھر خندق کھودنے کا حکم دیا گیا۔ تقریباً تین ہفتوں کی مسلسل جدو جہد کے بعد خندق تیار ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ بہ نفس نفیس صحابہ کرامؓ کے ساتھ خندق کی کھدائی میں شریک رہے۔ بعض مواقع پر، جب زیر زمین کوئی چٹان کھدائی میں رکاوٹ ڈالتی تھی اور صحابہ کرامؓ اسے توڑ نہیں پاتے تھے تو آپؐ آگے بڑھتے تھے اور آپؐ کی ایک ضرب سے چٹان پاش پاش ہوجاتی تھی۔
صحیح احادیث میں ہے کہ اس زمانے میں مدینہ میں خورد و نوش کی اشیاء کی شدید قلت تھی۔(۱) تھوڑا سا جو مل جاتا تو صحابہ کرامؓ اسے پرانے تیل میں پکا کر کھا لیتے تھے۔(۲) کبھی انھیں صرف کھجوروں پر گزارا کرنا پڑتا تھا ۔(۳) بسا اوقات تین تین دن تک کھانے کی کوئی چیز ان کے منھ کو نہ لگتی تھی۔(۴) اس دوران آں حضرتؐ کے دست مبارک سے متعدد معجزات کا ظہور ہوا۔ تھوڑا سا کھانا، جو گنتی کے چند افراد کے لیے کفایت کرسکتا تھا، اس میں اتنی برکت ہوئی کہ سیکڑوں افراد اس سے شکم سیر ہوئے۔
اسی موقع کی ایک روایت حضرت ابو طلحہؓ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں :
شَکَونَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ الجُوْعَ وَ رَفَعْنَا عَنْ بُطُونِنَا عَنْ حَجَرِ حَجَرِ، فَرَفَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ حَجَرَیْنِ ۔(۵)
’’ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ کھول کر دکھائے، جن پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا تھا۔ یہ سن کر آپؐ نے اپنا شکم مبارک کھول کر دکھایا۔ اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔‘‘
امام ترمذیؒ نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے: ھٰذا حدیث غریب لا نعرفہ الا من ھٰذا الوجہ (یہ حدیث غریب ہے، جو صرف اسی سند سے مروی ہے) علامہ البانیؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن غزوۂ خندق کے موقع پر بھوک کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا پیٹ پرباندھنا صحیح روایات سے ثابت ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے:
ثُمَّ قَامَ وَ بَطْنُہٗ مَعْصُوْب بِحَجَرِ ۔(۶)
’’پھر آپؐ کھڑے ہوئے۔ اس وقت آپؐ کے پیٹ پر ایک پتھر بندھا ہوا تھا۔‘‘
عربوں میں اس زمانے میں ایک چلن یہ تھا کہ وہ شدت بھوک کے احساس کو دبانے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔ اسے پتھر کو مشبعۃ کہا جاتا تھا، یعنی بھوک کا احساس ختم کرنے والا اور آسودگی کا احساس دلانے والا۔ علامہ ابن حجرؒ نے بخاری کی مذکورہ بالا روایت کی شرح میں لکھا ہے:
’’پیٹ پر پتھر باندھنے کا فائدہ یہ ہے کہ پیٹ جب بھوک کی وجہ سے سکڑ جاتا ہے تو کمر جھک جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگر پیٹ پر پتھر رکھ کر اوپر سے کپڑا باندھ لیا جائے تو پیٹھ سیدھی رہتی ہے۔‘‘ (۱)
کسی واقعے پر غور کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے زمانۂ وقوع اور اس جیسے حالات میں لے جاکر اس پر غور کیا جائے۔ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ کھیتوں میں کام کرنے والے یا محنت مزدوری کرنے والے اپنے پیٹ پر انگوچھا کس کر باندھ لیتے ہیں ، اس کے بعد کام کرتے ہیں تو انھیں تکان کا احساس کم ہوتا ہے۔ ایئرکنڈیشن کمروں میں بیٹھنے اور مرغن غذائیں آسودہ ہوکر کھانے والوں کی عقل میں اس عمل کی افادیت نہیں آسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہتّر (۷۲) گھنٹے بھوکے رہیں ، پھر پانچ چھ گھنٹے سخت زمین پر پھاؤڑا چلائیں ، تب انھیں بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا کہ پیٹ پر کپڑا باندھ کر پھاؤڑا چلانے سے تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے یا کچھ راحت محسوس ہوتی ہے۔