فجر کی سنتیں

لوگ فجر کی نماز میں جماعت ہوتے ہوئے وہیں سنتیں پڑھتے رہتے ہیں ، جب کہ فرائض پر سنتوں کو ترجیح دینا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ بہ راہ کرم اس کے بارے میں وضاحت فرمائیں ۔
جواب

احادیث میں فجر کی سنتوں کی بہت تاکید آئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :
’’نبی ﷺ نوافل میں سب سے زیادہ اہتمام فجر کی سنتوں کا فرماتے تھے۔‘‘
(صحیح بخاری، ابواب التہجد، حدیث:۶۱۹، صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر، حدیث:۷۲۴)
ام المومنین ہی کی دوسری روایت ہے:
’’نبی ﷺسفر میں ہوں یا حضر میں ، فجر کی سنتوں کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، حدیث:۵۹۲، صحیح مسلم، کتاب صلاۃالمسافرین، حدیث:۸۳۵)
اسی اہمیت کی بنا پر بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر مسجد میں فجر کی جماعت کھڑی ہوگئی ہو اور ایک رکعت ملنے کی امید ہو تو جماعت میں شامل ہونے سے پہلے سنتیں پڑھ لینی چاہئیں ۔ بلکہ بعض علماء یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر فرض کی دونوں رکعتیں چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو اور آدمی صرف قعدۂ اخیرہ میں شامل ہوسکتا ہو تو بھی پہلے سنتیں پڑھ لے پھر جماعت میں شامل ہو۔ یہ بات روحِ شریعت اور احادیث ِ نبوی کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ فجر کی سنتوں کی کتنی ہی اہمیت کیوں نہ ہو، مگر وہ فرض سے بڑھ کر نہیں ہوسکتیں ۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کھڑی ہوجانے کے بعد سنتیں پڑھنا ممنوع ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
اِذَا اُقِیْمَتِ الصَّلاَ ۃُ فَلاَ صَلاَ ۃَ اِلاَّ الْمَکْتُوْبَۃُ۔ (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب کراھۃ الشروع فی نافلۃ بعد شروع المؤذن، حدیث:۷۱۰)
’’جب جماعت کھڑی ہوجائے تو فرض کے علاوہ کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔‘‘
ایک موقعے پر رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ ایک شخص مسجد میں آیا۔ پہلے اس نے ایک کنارے دو رکعتیں پڑھیں ، پھر جماعت میں شامل ہوا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:
یَافُلاَنُ! بِاَیِّ الصَّلاَ تَیْنِ اِعْتَدَدْتَ؟ اَبِصَلاَتِکَ وَحْدَکَ، اَمْ بِصَلاَ تِکَ مَعَنَا۔ (صحیح مسلم، حوالہ سابق، حدیث:۷۱۲)
’’اے فلاں ! تمھاری (فجر کی) نماز کون سی ہوئی؟ جو تم نے تنہا پڑھی ہے وہ یا، جو ہمارے ساتھ پڑھی ہے؟‘‘
ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے نماز فجر کے موقعے پر دیکھا کہ جماعت کھڑی ہوگئی ہے۔ مؤذن اقامت کہہ رہا ہے اور ایک شخص الگ ہٹ کر سنتیں پڑھ رہا ہے۔ آں حضرت ﷺنے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
اَلصُّبْحُ اَرْبَعًا، اَلصُّبْحُ اَرْبَعًا۔ (صحیح بخاری، کتاب الاذان ، باب اذا اقیمت الصلاۃ فلا صلاۃ الا المکتوبۃ، حدیث: ۶۶۳، صحیح مسلم، باب کراھۃ الشروع فی نافلۃ بعد شروع المؤذن، حدیث:۷۱۱)
’’کیا فجر کی چار رکعتیں پڑھی جائیں گی، کیا فجر کی چار رکعتیں پڑھی جائیں گی؟‘‘
حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمنؓ فرماتے ہیں :
’’کچھ لوگوں نے اقامت سنی، پھر بھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے اور الگ سنتیں پڑھتے رہے۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو انھیں دیکھ کر خفگی سے دو مرتبہ فرمایا:
اَصَلاَ تَانِ مَعًا۔ (موطا امام مالک، کتاب صلاۃ اللیل، باب ماجاء فی رکعتی الفجر، حدیث: ۵۶۳ یہ حدیث مرسل ہے)
’’کیا دو نمازیں ایک ساتھ ہوں گی؟‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے لیے مسجد اس وقت پہنچے جب جماعت کھڑی ہوگئی ہو تو اس وقت اسے سنتیں نہیں پڑھنی چاہئیں ، بلکہ جماعت میں شامل ہوجانا چاہیے۔
اگر کسی کی فجر کی سنتیں چھوٹ جائیں تو وہ انھیں کب پڑھے؟ احناف کے نزدیک ان کی قضا سورج نکلنے کے بعد کی جائے گی، اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے، جن اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ان میں سے ایک فجر کی فرض نماز کے بعد سے طلوع آفتاب تک کا وقت ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
لاَ صَلاَۃَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ، وَ فِیْ رِوَایَۃٍ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ۔ (صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب لا یتحرّی الصلاۃ قبل غروب الشمس، حدیث: ۵۸۶، صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب الاوقات التی نھی عن الصلاۃ فیھا، حدیث:۸۲۵)
’’فجر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہیں ، یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے۔‘‘
دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَّمْ یُصَلِّ رَکْعَتَی الْفَجْرِ فَلْیُصَلِّھَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ۔ (جامع ترمذی،کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی اعادتھما بعد طلوع الشمس، حدیث۴۲۳، صحّحہ الألبانی)
’’جو شخص فجر کی دو رکعتیں سنت نہ پڑھ سکا ہو وہ انھیں سورج نکلنے کے بعد پڑھے۔‘‘
البتہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں طلوعِ آفتاب سے قبل بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ حضرت قیس بن عمروؓ فرماتے ہیں :
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جماعت سے فجر کی نماز پڑھی، پھر (اپنی چھوٹی ہوئی) سنتیں پڑھنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا: مَھْلاً یَا قَیْسُ اَصَلاَ تَانِ مَعًا؟اے قیس، ٹھہرو۔ کیا دو نمازیں ایک ساتھ پڑھوگے؟ دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: صَلاَۃُ الصُّبْحِ رَکْعَتَانِفجر کی تو صرف دو رکعتیں ہیں (پھر یہ مزید کیوں پڑھنے لگے؟) میں نے عرض کیا: میں فجر کی سنتیں نہیں پڑھ سکا تھا۔ انھیں اب ادا کررہا ہوں ۔ آپؐ نے فرمایا: فَلاَ اِذًا (تب کوئی بات نہیں )۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ سن کر آپؐنے سکوت فرمایا۔‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب التطوع، باب من فاتتہ متی یقضیھا، حدیث:۱۲۶۷، جامع الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فیمن تفوتہ الرکعتان قبل الفجر یصلیھما بعد صلاۃ الفجر، حدیث:۴۲۲، صحّحھا الالبانی)
اس تفصیل سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں :
(۱) حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ فجر کی سنتیں نہ چھوٹنے پائیں ۔
(۲) جماعت کھڑی ہوگئی ہو تو جماعت میں شامل ہوجانا چاہیے، اس وقت سنتیں نہیں پڑھنی چاہئیں ۔
(۳) فجر کی سنتوں کی قضا طلوع آفتاب کے بعد کی جائے۔ البتہ اگر طلوعِ آفتاب کے بعد تک موخر کرنے کی صورت میں ان کے بالکل چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو تو اس سے قبل بھی انھیں ادا کیا جاسکتا ہے۔