جواب
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے طریقۂ نماز سے متعلق جواحادیث مروی ہیں ، ان میں سے بعض میں یہ صراحت موجود نہیں ہے کہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد آپ ؐ ہاتھ باندھ لیتے تھے اوربعض میں اس کاذکر ہے ۔ احناف ، شوافع اورحنابلہ نے مؤخر الذکر احادیث کے پیش نظر ہاتھ باندھنے کوسنت قرار دیا ہے، جب کہ امام مالکؒ کے نزدیک وہ احادیث قابلِ ترجیح ہیں جن میں ہاتھ باندھنے کا تذکرہ نہیں ہے ۔
مؤطا امام مالکؒ میں مذکور بعض احادیث میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے۔ مثلاً حضرت سہل بن سعد ؓ فرماتےہیں :
کَانَ النَّاسُ یُوْمَرُوْنَ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنٰی عَلَی ذِرَاعِہِ الْیُسْرَیٰ فِیْ الصَّلاَۃِ (حدیث نمبر ۷۰۸)
’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی نمازمیں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھے۔‘‘
اس حدیث کی بنا پر امام مالکؒ ہاتھ باندھنے کو ’مندوب ‘ کہتےہیں ، لیکن وہ اسے سنت نہیں قراردیتے ۔
(الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ، عبدالرحمن الجزیری ، دارالکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۲۴ھ : ۱؍۲۲۷)
علامہ ابن رشد مالکیؒ نے اپنی تصنیف ’بدایۃ المجتہد ‘میں امام مالکؒ کے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ ہاتھ باندھنا افعال نمازمیں سے نہیں ہے ، بلکہ وہ استعانت کے قبیل سے ہے ۔ اسی لیے امام مالکؒ نے نفل میں اس کی اجازت دی ہے ، فرض میں نہیں ۔‘‘
(بدایۃ المجتہد ، دارالباز ، مکۃ المکرمۃ : ۱؍۱۳۷)
علامہ ابن عبد البر مالکی نے بیان کیا ہے کہ ’’امام مالکؒ زندگی کے آخری لمحے تک ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے رہے ۔‘‘ (فقہ السنۃ ، السید سابق، دارالفکر ، بیروت :۱؍۱۲۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھنے کا کیا حکم ہے ؟ فقہا ثلاثہ اسے مسنون کہتے ہیں ، جب کہ امام مالک مندوب قرار دیتے ہیں ۔