ہمارے خاندان کا ایک پرانا بڑا قبرستان ہے۔ خاندان کے بہت سے لوگ دوسرے مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں، اس لیے اس میں تدفین بہت کم ہوتی ہے۔ آبادی میں سات اور قبرستان بھی ہیں، جو آباد ہیں۔ اس قبرستان کے زیادہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے اس میں جھاڑ جھنکاڑ بڑی مقدار میں اُگ آتے ہیں۔ کچھ بیری کے درخت ہیں، لیکن وہ بے کار ہیں، ان میں پھل بہت کم اور خراب آتے ہیں۔
خاندان کے لوگوں کا مشورہ ہے کہ بیری کے درخت کٹوا دیے جائیں اور آئندہ قبریں ایک گوشے میں بنوائی جائیں۔ قبرستان کی باقی زمین میں کھیتی کروائی جائے۔ اس سے جو آمدنی ہو اس سے قبرستان کی صفائی ستھرائی اور ڈیولپمنٹ کے دوسرے کاموں پر خرچ کیا جائے۔ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں، کیا شرعی طور پر اس کی اجازت ہے؟
جواب
اگر قبرستان کو وقف کیا گیا ہو تو اس میں کھیتی باڑی کرنے کو فقہا نے ناجائز قرار دیا ہے، البتہ اگر وہ کسی کی ملکیت میں ہو تو اس میں اس کی اجازت ہے۔ (الہدایۃ، کتاب الوقف، ۲؍۶۴۰، فتح القدیر، کتاب الوقف،۶؍۲۲۰، الدرالمختار، باب صلوة الجنازہ،۳؍۱۴۵)
اگر موقوفہ قبرستان ویران ہو گیا ہو اور اس میں عرصے سے کوئی تدفین نہ ہو رہی ہو اور آئندہ بھی امید نہ ہو تو اسے کسی دوسرے بہتر اور مقصدِ وقف سے قریب تر استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
اگر قبرستان کا بڑا حصہ استعمال میں نہ ہو، پرانی قبروں کے نشانات مٹ گئے ہوں اور ویران پڑے رہنے کی وجہ سے اس میں خودرَو جھاڑیاں اُگ آئی ہوں اور جنگل جیسی کیفیت ہوگئی ہو تو اس کی صفائی کروائی جاسکتی ہے، درختوں کو کٹوایا جا سکتا ہے اور وقتِ ضرورت کھیتی کروائی جاسکتی ہے، لیکن ضروری ہے کہ اس کی آمدنی وقف کے کاموں میں استعمال ہو۔