قرآن مجید میں آیتوں کی تعداد

بعض کتابوں میں لکھا ہوا دیکھا کہ قرآن مجید میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (۶۶۶۶) آیتیں ہیں، جب کہ میں نے خود ان کا شمار کیا تو وہ چھ ہزار دو سو چھتیس (۶۲۳۶) نکلیں۔ اگر ایک سوتیرہ سورتوں کے شروع میں درج بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بھی آیتیں شمار کر لیا جائے تو بھی کل تعداد چھ ہزار تین سو انچاس (۶۳۴۹) ہوگی۔تعداد کا یہ فرق کیوں ہے؟ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں۔

جواب

قرآن مجید میں آیات کی تعداد مکہ، مدینہ، کوفہ، مصر اور شام کے قرّاء کے نزدیک مختلف رہی ہے۔ قرّاءِ کوفہ کل آیات چھ ہزار دو سو چھتیس (۶۲۳۶) بتاتے ہیں، جب کہ دیگر قرّاء اس سے کم و بیش تعداد کے قائل رہے ہیں۔ علوم القرآن کے موضوع پر بعض قدیم کتابوں میں آیاتِ قرآنی کی تعداد چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (۶۶۶۶) لکھی ہوئی ہے۔ اب پوری دنیا میں جو مصاحف متداول ہیں ان سب میں آیات کا شمار کرنے پر کل تعداد چھ ہزار دوسو چھتیس (۶۲۳۶) ہی نکلتی ہے۔ گویا اس تعداد پر پوری امت کا اتفاق ہوگیا ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرّاء کرام کے درمیان قرآن مجید کی بعض آیات کے قرآن ہونے یا نہ ہونے کا اختلاف تھا، بلکہ تعداد میں فرق کی وجہ یہ تھی کہ بعض قرّاء کے نزدیک ایک مقام پر وقف تھا، دوسروں کے نزدیک نہیں تھا۔ جو لوگ زیادہ مقامات پر وقف کے قائل تھے، اس اعتبار سے ان کے نزدیک آیات کی تعداد بڑھ گئی تھی، ورنہ قرآن مجید کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہ کچھ مسلمان اسے قرآن تسلیم کرتے ہوں اور کچھ اس کا انکار کرتے ہوں۔

اس موضوع پر دار العلوم دیوبند کے ایک فتویٰ میں کہا گیا ہے

’’عوام و خواص کی زبان پر زیادہ تر یہی مشہور ہے کہ قرآن پاک میں ۶۶۶۶ آیتیں ہیں، لیکن قرّاء سبعہ میں سے کسی کا قول نہیں ہے۔ قرآن میں آیات کی تعداد جو مذکور ہے وہ عدد کوفی سے مشہور ہے۔ حضرت حمزہؒ اور حضرت سفیانؒ سے مروی ہے اور یہ دونوں اہلِ علم حضرات اور ثقہ علما کے واسطوں سے سیدنا حضرت علیؓ سے ناقل ہیں۔ اس کے مطابق قرآن پاک کی آیات کی تعداد۶۲۳۶ ہے۔‘‘   (فتویٰ نمبر۶۰۲۱۸۷)

خلاصہ یہ کہ قرآن کی آیتوں کی تعداد۶۶۶۶ مشہور تو ہے، لیکن حقیقت کے مطابق نہیں ہے۔ حقیقی تعداد وہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔