جواب
قرآن کریم کسی انسان کا کلام نہیں ہے، بل کہ وہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے، اس کی ایک دلیل خود قرآن میں یہ بیان کی گئی ہے:
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَط وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا (النساء: ۸۲)
’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلافِ بیان پاتے۔‘‘
اگر قرآن کریم کے دو بیانات بہ ظاہر ٹکرا رہے ہیں تو یہ کلام الٰہی میں تضاد و اختلاف نہیں ، بل کہ انسانی فہم کا تصور ہے۔ کسی آیت کی وہی تفسیر و تاویل قابل ِ قبول ہے، جو قرآن کے دیگر بیانات سے نہ ٹکراتی ہو۔ اوپر درج سوال میں مذکور دونوں آیتوں کا جو مطلب لیا گیا ہے وہ چوں کہ قرآن کے دیگر بیانات سے ٹکراتا ہے، اس لیے صحیح نہیں ۔
سورۂ اعراف کی مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ مولانا احمد رضا خاں ؒ نے یہ کیا ہے: ’’جیسے اس نے تمھارا آغاز کیا ویسے ہی پلٹوگے۔‘‘ یہ لفظی ترجمہ ہے۔ مولانا مودودیؒ نے لفظی ترجمہ نہیں کیا ہے، بل کہ ان الفاظ میں ترجمانی کی ہے ’’جس طرح اس نے تمھیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤگے۔‘‘ آپ نے اس ترجمہ سے جو مفہوم اخذ کیا ہے (جس طرح اس نے تمھیں اب یعنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا ہے، اسی طرح، یعنی ماؤں کے پیٹ سے، پھر پیدا کیے جاؤگے)وہ سراسر آپ کے ذہن کی اپج اور الفاظِ قرآنی کے ساتھ کھینچا تانی ہے۔ آیت میں ’کَمَا‘ حرف تشبیہ ہے اور بلاغت کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے، اس میں یہ لکھا ہوا ملے گا کہ اگر کسی چیزکو دوسری چیز سے تشبیہ دی جائے تو دونوں میں ہر پہلو سے مشابہت ہونا ضروری نہیں ۔ کہا جائے: ’’زید شیر کی طرح ہے‘‘ تو اس کا یہ مطلب نکالنا درست نہ ہوگا کہ زید شیر کی طرح چار پیروں سے چلتا ہے اور اس کے تیز دانت اور نوکیلے پنجے ہیں ، جن سے وہ جانوروں کو پکڑتا اور ان کی تکا بوٹی کردیتا ہے، بل کہ اس جملہ میں زید کو محض بہادری میں شیر کی طرح کہا گیا ہے۔ اسی طرح آیت میں لفظ ’کَمَا‘ (جس طرح) سے یہ مطلب نکالنا درست نہ ہوگا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ انسانوں کو ان کی ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا ہے، اسی طرح دوبارہ انھیں ماؤں کے پیٹ سے پیدا کرے گا۔ بل کہ تشبیہ صرف عمل ِ تخلیق میں ہے نہ کہ کیفیت ِ تخلیق میں ۔ امام رازیؒ نے حسنؒ اور مجاہدؒ سے یہ تشریح نقل کی ہے: ’’اس نے تمھیں دنیا میں پیدا کیا، جب کہ تم کچھ نہ تھے، اسی طرح تم دوبارہ زندہ کیے جاؤگے‘‘ (تفسیر کبیر، المکتبۃالتوفیقیۃ مصر، ۱۴/۴۹) علامہ زمخشریؒ نے لکھا ہے: ’’جس طرح اس نے شروع میں تمھیں پیدا کیا تھا، اسی طرح دوبارہ (پیدا) کرے گا۔ کفار مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کیے جانے کا انکار کرتے تھے۔ اس آیت میں ان کے خلاف دلیل پیش کی گئی ہے۔ (کشّاف، طبع مصر ۱۹۷۲ء، ۲/۷۵-۷۶) یہ مضمون قرآن کریم میں بہ کثرت مقامات پر آیا ہے۔ انسانوں کی دوبارہ تخلیق کو ’مردہ زمین‘ سے بھی تشبیہ دی گئی ہے، کہ جس طرح زمین پر سبزہ اگتا ہے، پھر وہ مرجھا جاتا ہے اور زمین سوکھ کر چٹیل بن جاتی ہے ، دوبارہ پانی ملتا ہے تو وہ پھر پھبک اٹھتی ہے۔ یہ عقلی دلیل بھی دی گئی ہے کہ کسی چیز کو پہلی مرتبہ وجود میں لانا دشوار ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ انسانوں کی تخلیق پر قادر ہوگیا تو دوبارہ اس کا انھیں پیدا کرسکنا کیوں کر ناممکن ہے۔
سورۂ آل عمران کی آیت ۷۷ پر جو اشکالات وارد کیے گئے ہیں ، امام رازیؒ نے ان کے تین جوابات دیے ہیں ۔
۱- ان الفاظ سے محض یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے سخت ناراض ہوگا۔ یہ شدت ِ غضب کا کنایہ ہے۔ ان الفاظ کا ظاہری مفہوم یہاں مراد نہیں ہے۔
۲- اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے بلا واسطہ بات کرنا ان کے لیے بڑا اعزاز ہوگا، اس لیے اس کے مستحق صرف اس کے نیک بندے ہوں گے۔ رہے کافر و فاسق لوگ، تو ان سے اللہ تعالیٰ بلا واسطہ بات نہیں کرے گا، بل کہ اپنے فرشتوں کے ذریعے ان سے حساب لے گا۔
۳- بات نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے لطف و محبت کی بات نہ کرے گا اور نہ دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان پر کرم و احسان کی نگاہ نہ ڈالے گا۔ آیت میں یہ الفاظ مجازی معنیٰ میں آئے ہیں ۔ ان کا حقیقی مفہوم مراد نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر، ۸/۹۷- ۹۸)
علامہ ابن کثیرؒ نے تیسرے جواب کو اختیار کیا ہے۔ لکھا ہے: ’’یعنی اللہ تعالیٰ ان سے محبت سے بات نہ کرے گا اور ان پر رحم و کرم کی نگاہ نہ ڈالے گا۔‘‘ اس مفہوم کی تائید میں انھوں نے متعدد احادیث نقل کی ہیں جن میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔
(تفسیر ابن کثیر، مؤسسۃ الریّان بیروت، ۲۰۰۷ء ، ۱/۴۲۱- ۴۲۳)
مولانا عبد الماجد دریا بادیؒ نے لکھا ہے:
لاَ یُکَلِّمُھُمْ۔ یعنی بہ طریق لطف ان سے خطاب نہ کرے گا۔ جو خطاب برائے عتاب و مواخذہ ہو، اس کی نفی مراد نہیں ۔
لاَ یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ۔ یعنی نگاہِ مہر و التفات سے ان کی طرف نظر نہ کرے گا، نگاہ قہر کی نفی مراد نہیں ۔ (تفسیر ماجدی، طبع لکھنؤ، ۲۰۰۸ء، ۱/۵۹۹)