جواب
اللہ تعالیٰ نے قوموں کی ہدایت کے لیے انبیا بھیجے اور ان پر کتابیں نازل کیں ۔ سابقہ الہامی کتابوں میں توراۃ ، انجیل اور زبور کا نام ملتا ہے ۔ یہ کتابیں موجودہ بائبل میں شامل ہیں ، لیکن قرآن نے صراحت کی ہے کہ ان میں ان کے ماننے والوں نے تحریفات کر دی ہیں ۔ (البقرۃ۷۵، النساء۴۶، المائدۃ۱۳،۱۴) اس لیے ان میں حق اور باطل گڈ مڈ ہوگئے ہیں ۔ اب ان سے ہدایت نہیں حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ان میں کیا باتیں صحیح ہیں اور کیا غلط؟ یہ جاننے کا ذریعہ صرف قرآن مجید ہے۔اس لیے کہ اس کا ایک ایک حرف محفوظ ہے۔ قرآن کا ایک وصف ’مُھَیمِن‘ (المائدۃ۴۸) بیان کیا گیا ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں نگہبان ، گواہ اور محافظ ، یعنی قرآن سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ سابقہ کتابوں میں کیا تحریفات کی گئی ہیں اور اس وقت ان میں کیا باتیں صحیح ہیں اور کیا غلط؟
علامہ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے
’’قرآن پہلے کی ہر کتاب پر امین ، گواہ اور حاکم ہے ۔ اللہ نے اس کتاب عظیم کو ، جسے اس نے نازل کیا ، سب سے آخری کتاب بنایا ہے ۔ اسی طرح اس نے اسے تمام کتابوں میں سب سے جامع ، عظیم اور محکم بنایا ہے اور اس میں بہت سے ایسے کمالات کا اضافہ کر دیا جو دوسری کتابوں میں نہیں پائے جاتے ۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر۲؍۷۴۰)
مفسر ابن عطیہؒ فرماتے ہیں
’’قرآن کو اللہ تعالیٰ نے دوسری کتابوں پر ’مُھَیمِن‘ بنایا ہے ۔ وہ گواہی دیتا ہے کہ ان میں کیا صحیح باتیں پائی جاتی ہیں اور تحریف کرنے والوں میں کیا باتیں ان میں شامل کر دی ہیں ۔ چنانچہ وہ صحیح باتوں کی تائید کرتا اور تحریف کو غلط قرار دیتا ہے ۔‘‘
(المحرر الوجیز۲؍۱۹۹)
مولانا مودودیؒ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے
’’اصل میں لفظ ’مُھَیمِن‘ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنیٰ محافظت ، نگرانی ، شہادت ، امانت ، تائید اور حمایت کے ہیں ۔ پس قرآن کو ’الکتاب‘ پر ’مُھَیمِن‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے تمام بر حق تعلیمات کو ، جو پچھلی کتبِ آسمانی میں دی گئی تھیں ، اپنے اندر لے کر محفوظ کر دیا ہے۔ وہ ان پر نگہبان ہے اس معنیٰ میں کہ اب ان کی تعلیماتِ بر حق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا ۔ وہ ان کا مؤیّد ہے اس معنیٰ میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام جس حد تک موجود ہے ، قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنیٰ میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کا کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہوگئی ہے ، قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جا سکتا ہے ۔ وہ خدا کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام۔‘‘ (تفہیم القرآن۱؍۴۷۷)