جواب
قرآن مجید کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ’’سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔‘‘ اس کے لیےمُصَدِّقاًلِّمَا بَینَ یَدَیہِ یا اس جیسے دیگر الفاظ آئے ہیں ۔(ملاحظہ کیجیے البقرۃ۴۱، ۸۱، ۹۱،۹۷،۱۰۱، آل عمران۳، النساء۶۴، المائدۃ۴۷، الانعام۲۹، یونس۳۷، یوسف۱۱۱، فاطر۳۱، الاحقاف۱۲، ۳۱) مفسرین کرام نے اس کے دو (۲)مفہوم بیان کیے ہیں ایک تو یہی کہ وہ سابقہ آسمانی کتابوں کی صحیح باتوں کی تصدیق کرتا ہے ۔ اس کے دوسرے معنیٰ ’مصداق‘ کے ہیں ، یعنی سابقہ آسمانی کتابوں میں آخری نبی کے بارے میں جو پیشین گوئیاں بیان کی گئی تھیں ، اس کی بعثت سے وہ پوری ہو گئی ہیں ، لہٰذا ضروری ہے کہ آپؐ کو پیغمبر تسلیم کیا جائے۔ امام رازیؒ نے مؤخر الذکر مفہوم کو ترجیح دی ہے۔(التفسیر الکبیر۳؍۴۱) مولانا صدر الدین اصلاحیؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ مؤخر الذکر مفہوم ہی درست ہے، اول الذکر مفہوم نہیں لیا جا سکتا۔(تیسیر القرآن ص ۳۸۹-۳۹۸) مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس کے دونوں مفہوم پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے
’’قرآن کے مُصَدِّ قُ الَّذِی بَینَ یَدَیہِ ہونے کے ایک مشہور معنیٰ تو یہ ہیں کہ یہ بنیادی طور پر صحیفوں کی تمام تعلیمات کی تصدیق کرتا ہے۔ صرف ان باتوں کی تردید کرتاہے جو ان میں ملاوٹ کرنے والوں کی طرف سے ملادی گئی ہیں ۔ قرآن اور دوسرے آسمانی صحیفوں کی یہ ہم آہنگی و ہم رنگی اس بات کی صاف شہادت ہے کہ یہ سب ایک ہی آفتابِ حق کی شعاعیں اور ایک ہی منبعِ انوار کے پر تو ہیں ۔ دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ قرآن اور اس کے حامل کی صفات پچھلے صحیفوں کی پیشین گوئیوں میں مذکور ہیں ۔ یہ پیشین گوئیاں اب تک اپنے مصداق کی منتظر تھیں ۔ قرآن کے نزول اور محمد ﷺ کی بعثت سے ان کی تصدیق ہوئی ۔ یہ قرآن کے حق ہونے کی ایک بہت بڑی شہادت ہے اور ساتھ ہی اس سے ان صحیفوں کی بھی تصدیق ہو رہی ہے کہ ان میں جو پیشین گوئیاں وارد تھیں وہ سچی ثابت ہوئیں ۔‘‘ (تدبر قرآن۲؍۸۱)
اس سے واضح ہوا کہ مُصَدِّقاً لِّمَا بَینَ یَدَیہِ کے دو مفہوموں میں سے اگر پہلا مفہوم مراد لیا جائے تو بھی اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ قرآن سابقہ آسمانی کتابوں کی تمام باتوں کی تصدیق کرتا ہے ، بلکہ اس کا مطلب قطعی طور پر یہی ہے کہ ان کتابوں کی جو باتیں قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہیں ، قرآن صرف انہی کی تائید و تصدیق کرتا ہے ۔ جب یہ کتابیں اپنی تصدیق کے لیے قرآن کی محتاج ہیں تو ظاہر ہے کہ سابقہ اقوام کے سامنے صرف انہی کتابوں کے ذریعے دعوت نہیں پیش کی جا سکتی ، بلکہ ان کے سامنے قرآن کی دعوت پیش کی جا ئے گی اور کہا جائے گا کہ اس دعوت کی کچھ جھلکیاں سابقہ کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔