جواب
قرآن ِ کریم کا کوئی نسخہ یا اس کے کچھ اوراق اتنے بوسیدہ ہوجائیں کہ ان سے استفادہ ممکن نہ ہو تو انھیں ادھر ادھر نہ پھینکا جائے اور نہ ان کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ کیا جائے جس سے بے حرمتی ہو۔ علما نے اس کے لیے مختلف طریقوں کی نشان دہی کی ہے۔
احناف اور حنابلہ کہتے ہیں کہ کوئی مصحف بوسیدہ ہوجائے تو اسے کسی ایسی جگہ دفن کردینا چاہیے، جسے پیروں سے روندا نہ جاتا ہو، تاکہ بے حرمتی نہ ہو۔ امام احمدؒ نے تابعی ابو الجوازؒ (م ۸۳ھ) کے متعلق نقل کیا ہے کہ ان کا مصحف ِ قرآن بوسیدہ ہوگیا تو انھوں نے اپنی مسجد میں ایک گڑھا کھود کر اس میں دفن کردیا۔ حضرت عثمانؓ کے بارے میں ایک روایت ہے کہ انھوں نے قرآن کے کچھ مصاحف مسجد نبوی میں منبر اور قبر ِ نبوی کے درمیان دفن کروادیے تھے۔ احناف کہتے ہیں کہ بوسیدہ نسخوں کو آگ میں جلا دینا جائز نہیں ہے۔ یہی قول ابراہیم نخعیؒ سے بھی مروی ہے۔ شوافع میں سے قاضی حسینؒ کا بھی یہی خیال ہے۔ امام نوویؒ جلانے کو مکروہ کہتے ہیں ۔
مالکیہ کہتے ہیں کہ بوسیدہ نسخوں کو جلا دینا جائز، بل کہ بسا اوقات ضروری ہے۔ تاکہ ان کی بے حرمتی نہ ہو اور وہ پیروں سے روندے جانے سے محفوظ رہیں ۔ امام قرطبی مالکی ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے ایسا ہی کیا تھا اور تمام صحابۂ کرامؓ نے ان کی تائید کی تھی۔
(الموسوعۃ الفقھیۃ، طبع کویت، ۲۸/۲۳)
حضرت عثمان بن عفانؓ کے عہد ِ خلافت میں اسی طرح کی صورت ِ حال پیش آئی تھی تو انھوں نے قرآن کے نسخوں کو جلا دینے کا موقف اختیار کیا تھا اور تمام صحابہ کرامؓ نے ان کی تصویب کی تھی۔ قرأت ِ قرآن کے معاملے میں جب اختلافات سامنے آنے لگے تو انھوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے جمع کردہ نسخۂ قرآن کو، جو ام المؤمنین حضرت حفصہؓ کے پاس محفوظ تھا، منگوایا۔ اس کے متعدد نسخے تیار کروا کے مملکت ِ اسلامیہ کے مختلف علاقوں میں بھجوا دیے اور صحابہ کرام کے پاس ان کے جو ذاتی نسخے تھے، سب کو جمع کروا کے جلوا دیا۔ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں اس سلسلے کی جو روایت نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں :
فارسل الی کل افق بمصحف مما نسخوا و امر بما سواہ من القرآن فی کل صحیفۃ او مصحف ان یحرق۔
(صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، حدیث: ٤٩٨٧)
’’کاتبین قرآن نے جو نسخے تیار کیے تھے، ان میں سے ایک ایک مصحف انھوں نے ہر علاقے میں بھجوادیا، اور ان کے علاوہ قرآن جن صحیفوں یا مصاحف میں لکھا ہوا تھا، سب کو جلوا دیا۔‘‘
علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے: ’’حضرت عثمانؓ نے یہ کام مہاجرین، انصار اور دیگر مسلمانوں کو اکٹھا کرکے اور ان سے مشورہ کرنے کے بعد کیا تھا۔ وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ قرآن کا ایک صحیح نسخہ تیار کرکے، دیگر نسخوں کو ضائع کردیا جائے۔ انھوں نے حضرت عثمانؓ کی رائے کی تصویب کی تھی۔ بلاشبہ ان کی رائے درست اور تائید ِ الٰہی سے بہرہ ور تھی۔‘‘
(تفسیر قرطبی، طبع مصر، ۱۹۸۷ء، ۱؍۵۲)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں جب حضرت عثمانؓ پر بعض حلقوں سے تنقیدیں ہونے لگیں تو ان کے اس عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت حضرت علی بن ابی طالبؓ نے کھل کر ان کی حمایت کی۔ ایک موقع پر انھوں نے فرمایا:
’’لوگو! اللہ سے ڈرو۔ عثمانؓ کے معاملے میں غلو نہ کرو۔ انھیں قرآن جلانے والا نہ کہو، اللہ کی قسم! انھوں نے ہم تمام اصحاب ِمحمد ﷺ سے مشورہ کرنے کے بعد ایسا کیا تھا۔‘‘
(تفسیر قرطبی، ۱؍۵۴)
اسی طرح ایک موقع پر انھوں نے فرمایا:
’’اگر اس وقت میں خلیفہ ہوتا تو ان دیگر مصاحف کے ساتھ میں بھی وہی کرتا جو عثمانؓ نے کیا۔‘‘ (تفسیر قرطبی، ۱؍۵۴)
محدث ابن بطال فرماتے ہیں : ’’حضرت عثمانؓ نے مصاحف جلوا دیے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن کتابوں میں اللہ کا نام لکھا ہو، انھیں جلایا جاسکتا ہے۔ اس سے ان کی بے حرمتی نہیں ہوگی۔ انھیں پیروں سے نہ روندا جائے گا اور وہ زمین میں ادھر ادھر نہیں پڑے رہیں گے۔‘‘ (ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، دار المعرفۃ بیروت، ۹؍۲۱، تفسیر قرطبی، ۱؍۵۴)
حضرت عروہ بن زبیر اور حضرت طاؤس کی بھی یہی رائے ہے۔ قرطبیؒ نے بھی اسی کو بہتر قرار دیا ہے۔ (فتح الباری، ۹؍۲۱، تفسیر قرطبی، ۱؍۵۴- ۵۵)
آپ کی رائے درست ہے کہ دریا یا سمندر میں قرآن کے بوسیدہ اوراق کو بہا دینے سے مذکورہ فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ اس لیے کہ وہ بہہ کر کنارے لگ جائیں گے اور پھر ان کی بے حرمتی ہوگی۔ اس لیے زمین میں دفن کردینے یا آگ میں جلا دینے میں سے جو طریقہ مناسب معلوم ہو، اسے اختیار کرنا چاہیے۔