قرض میں روپیہ دے کر ڈالر میں نہیں  وصول کیاجاسکتا

یک صاحب نے اپنے ایک عزیزکو چند لاکھ روپے بطورقرض دیے اور کہاکہ ان روپوں کو ڈالر میں تبدیل کرلیں اورجب واپس کریں تو ڈالر کے حساب سے ہی واپس کریں ۔ کیا قرض دینے اور واپس لینے کا یہ طریقہ شریعت کے مطابق درست ہے؟جب کہ قرض واپس کرنے کی مدت پانچ سال سے زیادہ ہے؟
جواب

رض دینا دراصل دوسرے شخص کی ضرورت پوری کرنا ہے۔ یہ ایک احسان ہے۔ جو شخص یہ احسان کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ ضرور اس کا اچھا بدلہ عطا فرمائے گا۔ قرض دینے والے نے جتنے روپے دیے ہیں ،اتنے ہی روپے واپس لینے کا وہ حق رکھتا ہے، چاہے جتنے برس کے بعد اسے قرض واپس ملے، مثلاً کسی شخص نے دس لاکھ روپے پندرہ برس کے لیے اپنے کسی عزیز یا دوست کو دیے۔ اگرچہ پندرہ برس کے بعد روپے کی قدرمیں کمی آجائے گی، لیکن وہ اس کے بہ قدر کچھ زیادہ رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا،دس لاکھ روپے ہی واپس لے گا۔اس سے ایک پیسہ بھی زیادہ لیا جائے تو سود ہوجائے گا، جسے اسلامی شریعت میں حرام قراردیا گیا ہے۔ یقیناً روپے کی قدرمیں کچھ کمی آئی ہوگی، اسی کے بہ قدروہ اپنے بھائی کی مدد کرنے پراللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر کا مستحق ہوگا۔
آپ نے جو صورت لکھی ہے وہ تھوڑی ترمیم کے ساتھ قابلِ عمل ہوسکتی ہے ۔ ایسا نہ کریں کہ قرض تو روپے میں دیں  اور قرض لینے والے سے کہیں کہ وہ اسے ڈالر میں تبدیل کرکے قرض ڈالر میں نوٹ کرے اور بعد میں جب واپس کرے تو اتنے ڈالر کے بہ قدرروپیہ دے، بلکہ آپ خود روپیہ کو ڈالر میں تبدیل کرکے ڈالر قرض میں دیں اور متعین مدت کے بعد ڈالر ہی میں قرض واپس لیں ۔
ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی شخص کسی سے کچھ قرض لے اور اس سے اپنی کوئی ضرورت پوری کرے، یا اسے تجارت میں لگاکر منافع کمائے تو جب قرض واپس کرے تو اس میں کچھ اضافہ کرکے واپس کرسکتا ہے۔ یہ سود نہیں ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی اسوہ ہے۔ آپؐ کسی سے قرض لیتے تھے تو اس میں کچھ اضافہ کرکے واپس کرتے تھے۔ حرام یہ ہے کہ متعین شرح کے ساتھ اضافہ طے کرلیاجائے اوراس کی ادائیگی کا قرض لینے والا پابند ہو۔