جواب
آپ کے دونوں سوالات آیات ِ قرآنی کی تاویل و توجیہہ سے متعلق ہیں ۔ میں اپنے فہم کے مطابق انھیں حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
(۱) سورۂ یوسف کی متعلقہ آیات کی جو تشریح و تفسیر عام طور سے مفسرین کرام نے کی ہے، اس سے وہ اشکال پیدا ہونا فطری ہے، جس کا آپ نے تذکرہ کیا ہے۔ انھوں نے اسے حضرت یوسف علیہ السلام کا ’توریہ‘ قرار دیا ہے۔ توریہ اسے کہتے ہیں کہ ایک شخص کوئی ایسی بات کہے، جو ظاہر میں خلاف ِ واقعہ معلوم ہو، لیکن حقیقت میں وہ واقعے کے عین مطابق ہو۔ مولانا مودودیؒ کی تشریح بھی دوسرے مفسرین کے مطابق ہے۔ مفسرین نے واقعے کی جو جزئیات بیان کی ہیں ، ان پر متعدد اشکالات پیدا ہوتے ہیں اور الفاظ ِ قرآنی سے بھی ان کی تائید نہیں ہوتی ہے۔
(۱) وہ کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کو اپنے پاس روکنے کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک اسکیم تیار کی اور کام یابی کے ساتھ اس پر عمل کیا۔ جب کہ قرآن مجید اس خفیہ تدبیر کو حضرت یوسف ؑ کی طرف نہیں ، بل کہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ (اس طرح ہم نے یوسف کی تائید اپنی تدبیر سے کی)
(۲) وہ کہتے ہیں کہ بھائیوں کے تھیلوں کی تلاشی حضرت یوسف علیہ السلام نے خود لی اور چوں کہ انھیں معلوم تھا کہ گم شدہ پیالہ ان کے بھائی بنیامین کے تھیلے میں ہے، اس لیے کہ انھوں نے اسے خود رکھایا رکھوایا تھا، اس لیے پہلے دوسرے بھائیوں کے تھیلے کھول کر دیکھے اور سب سے آخر میں بنیامین کا تھیلا کھولا اور اس میں سے پیالہ نکال کر اس پر چوری کا الزام لگا دیا۔ جب کہ قرآن مجید میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ فَبَدَأَ بِاَوْعِیَتِھِمْ (تب اس نے ان کے تھیلوں کی تلاشی لینی شروع کی) میں ضمیر کا مرجع مُؤذِّنٌ (پکارنے والے) کی طرف بھی ہوسکتا ہے، بل کہ وہی ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ وہی قریب ترین اسم ظاہر ہے۔
(۳) حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی کے سامان میں سِقَایَۃ (پانی پینے کا برتن، پیالہ) رکھا تھا، جب کہ سرکاری کارندوں نے بتایا کہ صُوَاع (ناپنے کا برتن، پیمانہ غائب ہوگیا ہے۔ دونوں موقعوں کے لیے قرآن میں الگ الگ الفاظ کا استعمال ہوا ہے۔ لیکن مفسرین نے دونوں کو ایک کردیا اور تاویل یہ کی کہ اس برتن کو پہلے پانی پینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، بعد میں اسی کو ناپنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ یہ بات نہ عقلی طور پر ہضم ہوتی ہے اور نہ الفاظ قرآنی اس کا ساتھ دیتے ہیں ۔ حضرت یوسف ؑ ایک بڑی مملکت کے سربراہ تھے۔ قحط کے زمانے میں اطراف و اکناف کے ہزاروں ضرورت مندوں کو غلّہ سپلائی کیا جارہا تھا۔ اس لیے یہ بات بالکل بعید از عقل معلوم ہوتی ہے کہ غلّہ ناپنے کے لیے سرکاری طور پر متعین کردہ کوئی پیمانہ نہ ہو، بل کہ پانی پینے والے ایک کٹورے ہی سے غلّہ ناپ ناپ کر دیا جاتا ہو۔ سِقَایَۃ عربی زبان میں اس برتن کو کہتے ہیں ، جسے پانی پینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مؤنث ہے اور صواع کا اطلاق اس برتن پر ہوتا ہے، جسے ناپنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مذکر ہے۔ اسی معنی میں لفظ صاع بھی مستعمل ہے۔ آگے کی آیات میں صواع کے لیے مذکر کی ضمیر (وَ لِمَنْ جَآئَ بِہٖ) اور سقایۃ کے لیے مؤنث کی ضمیر (ثُمَّ اسْتَخْرَجَھَا) آئی ہے۔ سرکاری کارندوں کے بیان کے مطابق ان کا صواع غائب ہوا تھا، لیکن بنیامین کے تھیلے سے صواع نہیں ، بل کہ سقایۃ نکلا تھا۔
قرآنی بیانات پر غور کرنے سے پیش آمدہ واقعات کی درج ذیل ترتیب سمجھ میں آتی ہے:
۱- حضرت یوسف علیہ السلام کے اصرار پر جب ان کے بھائی اگلے سفر میں ان کے ماں جائے بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لائے تو حضرت یوسف ؑ نے انھیں اپنے پاس ٹھہرایا، ان کی خوب خاطر مدارات کی اور ان پر ظاہر کردیا کہ میں ہی تمھارا وہ بھائی ہوں ، جو کھو گیا تھا اور انھیں تسلّی دی کہ وہ بھائیوں کے جور و ستم پر دل گرفتہ نہ ہوں ۔ اس موقع پر اگرچہ حضرت یوسف ؑ کی دلی خواہش تھی کہ اپنے بھائی کو اپنے پاس روک لیں ، لیکن وہ مصلحتاً ابھی اپنے دوسرے بھائیوں پر خود کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ واپس جانے دیا۔ کیوں کہ بغیر خود کو ظاہر کیے انھیں اپنے پاس روکنا ممکن نہ تھا۔
۲- بھائیوں کے قافلے کی واپسی کے وقت انھوں نے ایک پیالہ اپنے بھائی بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا، تاکہ طویل سفر کے دوران راستے میں پانی پینے کے لیے اسے استعمال کیا جاسکے۔ اس کی خبر صرف حضرت یوسف ؑ کو تھی یا اس شخص کو جس کے ذریعے انھوں نے اسے رکھوایا تھا۔ بنیامین کو بھی بتانے کی انھوں نے ضرورت نہیں سمجھی کہ راستے میں جب وہ اپنے سامان میں اسے دیکھے گا تو سمجھ جائے گا کہ بھائی نے دیا ہے۔ حضرت یوسف ؑ کا یہ عمل اسی طرح کا تھا، جس طرح انھوں نے اپنے بھائیوں کے پہلے سفر میں ان کی نقدی کو (جو انھوں نے غلّہ کے عوض دی تھی) ان کے سامان میں رکھوا دیا تھا اور سامان کھولنے پر جب انھوں نے اپنی نقدی دیکھی تھی تو سمجھ گئے تھے کہ یہ ’عزیز مصر‘ کی نوازش ہے۔
۳- برادران ِ یوسف کے قافلے کے رخصت ہونے کے بعد وہ سرکاری پیمانہ، جس سے غلّہ ناپا جاتا تھا، کہیں کھوگیا۔ کارندے پریشان ہوئے کہ دوسرے قافلے آتے ہوں گے، انھیں کیسے غلّہ ناپ کردیا جائے گا؟ معاً ان کے ذہن میں یہ خیال گزرا کہ ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ابھی یہاں سے گئے ہیں وہی اٹھا لے گئے ہوں ۔ فوراً ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو دوڑایا گیا۔
۴- ارکان ِ قافلہ اور سرکاری کارندوں کے درمیان دو بہ دو ہونے والی جو گفتگو قرآن نے نقل کی ہے، اس سے سرکاری کارندوں کی پریشانی کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان کا غالب گمان تھا کہ اسے انھی قافلہ والوں میں سے کسی نے غائب کیا ہے۔ انھوں نے پیمانے کو برآمد کرنے کے لیے لالچ سے بھی کام لیا اور دھمکایا بھی۔ لالچ یہ دیا کہ ’’جو شخص بھی اسے لاکر دے گا اس ایک شتر غلّہ انعام دیا جائے گا۔ اس کا پکاّ وعدہ ہے‘‘ جب ارکان ِ قافلہ نے اپنی برأت ظاہر کی تو دھمکی آمیز لہجے میں دریافت کیا کہ اگر کسی کے سامان میں سے نکل آیا تو اس کی کیا سزا ہوگی؟
۵- جرائم کی سزائیں ہر ملک میں متعین ہوتی ہیں ۔ کسی ملک میں جس جرم کا ارتکاب ہوتا ہے، اس کی سزا اس ملک کے قوانین کے مطابق دی جاتی ہے۔ چوری کی جو سزا اس زمانے میں مصر میں دی جاتی تھی، اسی کے مطابق معاملہ کیا جاتا، لیکن سرکاری ملازموں نے خلاف ِ معمول خود مشتبہ ملزموں سے اس کی سزا پوچھی۔ انھوں نے کہا: ’’اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں سے وہ غائب چیز نکلے اسے روک لیا جائے۔‘‘ یہی ہے وہ ’تدبیر‘ جو اللہ کی طرف سے حضرت یوسف علیہ السلام کے حق میں ظاہر ہوئی تھی۔ آگے کی آیت کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ (اس طرح ہم نے یوسف ؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی) سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔
۶- برادرانِ یوسف کے تھیلوں کی تلاشی سرکاری کارندوں کے اسی سرغنہ نے لی، جسے گزشتہ آیت میں مؤذن (پکارنے والا) کہا گیا تھا۔ پہلے حضرت یوسف ؑ کے دوسرے بھائیوں کے تھیلوں کی اور آخر میں بنیامین کے تھیلے کی تلاشی لینا محض اتفاقیہ تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ تلاشی لینے والے کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس تھیلے میں پیالہ رکھا ہوا ہے، اس لیے جان بوجھ کر اس نے اس کی تلاشی سب سے آخر میں لی۔
۷- تلاشی لینے پر کھویا ہوا پیمانہ (صواع) تو برآمد نہ ہوا، لیکن ایک دوسری چیز (سقایۃ) مل گئی۔ چناں چہ ارکان قافلہ کو حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا اور ان کے سامنے پوری تفصیل بتائی گئی کہ سرکاری پیمانہ کہیں کھو گیا تھا، ان لوگوں پر شبہ ہوا، ان کی تلاشی لینے پر پیمانہ تو نہیں ملا، البتہ یہ پیالہ ان کے سامان میں ملا ہے۔ حضرت یوسف ؑ کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ ان لوگوں سے پوچھا گیا تھا کہ اگر کھوئی ہوئی چیز ان کے سامان میں مل گئی تو اس کی کیا سزا ہوگی؟ انھوں نے کہا تھا کہ جس کے سامان میں سے وہ چیز نکل آئے اسے روک لیا جائے۔
۸- بنیامین کے سامان میں پیالہ نکل آیا تو برادران ِ یوسف ؑ کھسیا گئے۔ اپنی خفت مٹانے کے لیے وہ فوراً بول پڑے: ’’یہ چوری کرے تو کچھ تعجب کی بات نہیں ۔ اس سے پہلے اس کا بھائی (یوسف) بھی چوری کرچکا ہے۔‘‘ اس کے بعد قرآن کہتا ہے: فَاَسَرَّھََا یُوْسُُفُ فِیْ نَفْسِہٖ وَلَمْ یُبْدِھَا لَھُم (آیت: ۷۷) (یوسف ان کی یہ بات سن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی)۔ مفسرین نے عام طور پر اس جملے کو پہلے جملے سے متعلق مانا ہے، یعنی بھائیوں نے جب چوری کے معاملے میں بنیامین کے ساتھ یوسف ؑ کو بھی لپیٹ لیا تو یوسف ؑ کو غصّہ تو بہت آیا، مگر وہ اسے پی گئے اور کوئی ایسی بات نہیں کہی، جس سے حقیقت ظاہر ہوجائے۔ لیکن صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کا تعلق پورے واقعے سے ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے جب ان کے بھائیوں کا مقدمہ آیا تو اگرچہ انھیں بہ خوبی معلوم تھا کہ پیالے (سقایۃ) کی چوری بنیامین نے نہیں کی ہے، اسے تو انھوں نے خود رکھوایا تھا، لیکن وہ خاموش رہے اور بھائیوں کے سامنے حقیقت حال کا اظہار نہیں کیا۔ اس لیے کہ انھوں نے محسوس کیا کہ مشیت ِ الٰہی سے بنیامین کو اپنے پاس روکنے کی ایک سبیل نکل آئی ہے، جس پر ان کے بھائی بھی چار و ناچار تیار ہیں ۔ اسی لیے جب ان کے بھائیوں نے منت سماجت کی کہ بنیامین کو چھوڑ دیجیے اور اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو روک لیجیے تو حضرت یوسفؑ اس پر تیار نہیں ہوئے اور کہا کہ اسی کو روکیں گے، جس کے پاس اپنا سامان پایا ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے نہ اپنے بھائی پر چوری کا الزام لگایا اور نہ کسی موقعے پر دروغ گوئی سے کام لیا۔ بل کہ واقعات مشیت الٰہی سے خود بہ خود حضرت یوسف ؑ کے حق میں سازگار ہوتے گئے۔
قصۂ یوسف کی جو تاویل اوپر کی سطروں میں بیان کی گئی ہے، وہ میرے ذہن کی اپج نہیں ہے، بل کہ بعض قدیم اور جدید مفسرین نے اس کی جانب اشارے کیے ہیں ۔ مشہور مفسر امام رازیؒ نے پہلے یہ اشکال قائم کیا ہے: ’’اگر یہ کہا جائے کہ جو کچھ کیا گیا اس کا حضرت یوسف ؑ نے حکم دیا تھا یا اس کی انجام دہی بغیر ان کے حکم کے کی گئی تھی؟ اگر وہ ان کے حکم سے ہوا تھا تو یہ ایک پیغمبر برحق کے شایان ِ شان کیوں کر ہوسکتا ہے کہ وہ غلط طور سے کچھ لوگوں پر الزام لگائے، انھیں چور کہے، ان کے بارے میں جھوٹ بولے اور ان پر بہتان لگائے؟ اور اگر دوسری بات ہے، یعنی انھوں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا تو انھوں نے کیوں ان پر لگائے جانے والے الزام کی تردید نہیں کی اور کیوں اس سے ان کی برأت کا اظہار نہیں کیا؟ ’’پھر اس اشکال کے جواب میں انھوں نے علماء کی چار توجیہیں نقل کی ہیں ۔ ان میں سے ایک توجیہ یہ ہے کہ قرآن میں یہ مذکور نہیں ہے کہ سرکاری ملازموں نے حضرت یوسف ؑ کے کہنے پر چوری کا الزام لگایا تھا۔‘‘ (التفسیر الکبیر، المکتبۃ لقو التوفیقیۃ، قاہرہ، ۱۸؍ ۱۴۷) مولانا اختر احسن اصلاحیؒ نے مذکورہ آیات کی یہی تاویل اختیار کی ہے۔ (ملاحظہ کیجیے مولانا جلیل احسن ندوی، نقوش و تاثرات، دائرہ علمیہ جامعۃ الفلاح بلریا گنج، اعظم گڑھ، مقدمہ) یہ تحقیق نہیں ہوسکی کہ یہ ان کی اپنی رائے تھی یا ان کے استاذ مولانا فراہیؒ کی رائے سے استفادہ تھا۔
(۲) قصہ سلیمان ؑ و ملکۂ سبا کے بارے میں جو اشکال آپ نے ظاہر کیا ہے، وہ بھی واقعہ کے سیاق و سباق سے ہٹ کر اس پر غور کرنے کا نتیجہ ہے۔ کسی چیزکے جائز یا ناجائز ہونے کا دارو مدار اس کے موقع و محل پر ہوتا ہے۔ عام حالات میں ایک عمل ناجائز ہوتا ہے، مگر وہی عمل بعض مخصوص حالات میں جائز ہوجاتا ہے۔ ان مخصوص حالات میں سے ایک حالت جنگ کی ہے۔ مثال کے طور پر عام حالات میں کسی شخص کو قتل کرنا اور اس کی مملوکہ چیزوں پر قبضہ کرنا جائز نہیں ، مگر حالت ِ جنگ میں دشمن کے تعلق سے یہ دونوں کام جائز ہوجاتے ہیں ۔ عام حالات میں پڑوسی مملکتوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر تسلط جمانا جائز نہیں ، مگر حالت ِ جنگ میں اس کی اجازت ہے۔ مذکورہ واقعے میں حضرت سلیمانؑ کے ذریعے ملکہ ٔسبا کا تخت شاہی اٹھوا لینا عام حالات کا نہیں ، بل کہ حالت ِ جنگ کا واقعہ ہے۔ قرآن میں اس کی صراحت موجود ہے۔ قرآنی بیان کے مطابق واقعات کی ترتیب درج ذیل ہے:
۱- مملکت ِ سبا میں جو قوم بستی تھی، وہ سیدھے راستے سے بھٹکی ہوئی تھی، سورج کی پرستش کرتی تھی، اللہ کو بھولی ہوئی تھی، شیطان کے بہکاوے میں آکر گندے اور غلط کاموں میں مبتلا تھی: وَجَدْتُّھَا وَ قَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لاَ یَھْتَدُوْنَoلا (النمل:۲۴)
ان پر ایک عورت حکم رانی کر رہی تھی، وہ بھی گم راہی اور شرک و بت پرستی میں اپنی قوم کے ساتھ شریک تھی: وَصَدَّھَا مَا کَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِط اِنَّھَا کَانَتْ مِنْ قَوْمٍ کٰفِرِیْنَo (النمل: ۴۳)
۲- حضرت سلیمان علیہ السلام نے انھیں سرکشی کی روش سے باز آنے اور سر ِ اطاعت خم کرنے کی دعوت دی: اَلّاَ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَoع (النمل: ۳۱)
۳- ملکۂ سبا نے حضرت سلیمانؑ کا پیغام ملنے کے بعد اپنے درباریوں اور مملکت کے اعیان و وزراء سے مشورہ کیا۔ انھو ں نے کہا کہ ہم زور آور اور جنگ جوٗ لوگ ہیں ، جنگ کیے بغیر اطاعت نہیں کریں گے: نَحْنُ اُولُوْا قُوَّۃٍ وَّ اُولُوْا بَاْسٍ شَدِیْدٍ ۵لا (النمل: ۳۳)
۴- ملکہ نے جنگ کی رائے سے اتفاق نہیں کیا اور اس کے برے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے مصالحانہ روش اختیار کرنے کو ترجیح دی اور حضرت سلیمان ؑ کی خدمت میں تحائف بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا: اِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ اِلَیْھِمْ بِھَدِیَّۃٍ (النمل: ۳۵)
۵- حضرت سلیمان ؑ نے تحائف قبول نہیں کیے اور فرمایا کہ انھیں اسلام یا اطاعت کے علاوہ اور کوئی چیز منظور نہیں ۔ ساتھ ہی انھوں نے تحائف لانے والے وفد کو واپس کرتے ہوے جنگ کا اعلان کردیا: اِرْجِعْ اِلَیْھِمْ فَلَنَاْتِیَنَّھُمْ بِجُنُوْدٍ لّاَ قِبَلَ لَھُمْ بِھَا وَ لَنُخْرِجَنَّھُمْ مِّنْھَآ اَذِلَّۃً وَّ ھُمْ صٰغِرُوْنَo (النمل:۳۷)
ملکہ کا تخت شاہی منگوانے کا واقعہ اس کے بعد کا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ اس کا تعلق عام حالات سے نہیں ، بل کہ حالت ِ جنگ سے ہے۔
واقعے کے سیاق میں اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ملکہ کا تخت شاہی اٹھوا کر حضرت سلیمان ؑ نے کیا مقصد حاصل کرنا چاہا تھا؟ اور کیا اس میں کام یاب ہوئے؟ اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اس تخت کی تعریف سن کر ان کے منہ میں پانی بھر آیا تھا اور وہ اسے اپنے یہاں اٹھوا کر خود استعمال کرنا چاہتے تھے۔اگر ان میں کسی طرح کا لالچ ہوتا تو وہ ملکہ کی جانب سے بھیجے گئے قیمتی تحائف کو واپس نہ کرتے۔ انھیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو نعمتیں حاصل تھیں ، وہ ملکۂ سبا کو حاصل آسائشوں سے کہیں بڑھ کر تھیں : فَمَآ ٰ اتٰنِی اللّٰہُ خَیْرٌ مِمَّآ ٰ اتٰکُمْ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے شیش محل کو دیکھ کر ملکہ مبہوت ہوکر رہ گئی اور اس کے انتہائی صاف و شفاف اور بلّوریں فرش کو پانی کا حوض سمجھ بیٹھی۔ ملکہ کے تخت شاہی کو آناً فاناً اس کے دربار ِ سلیمانی میں پہنچنے سے پہلے منگوانے کی اصل غرض یہ تھی کہ حضرت سلیمان ؑ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی طاقتوں کا ایسا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے، جسے دیکھ کر وہ محض مطیع اور باج گزار بن کر نہ رہ جائے، بل کہ نعمت ِ ایمانی سے بہرہ ور ہوجائے اور ایسا ہی ہوا۔ ملکہ کے پہنچنے پر اس کا تخت بالکل انجان بن کر اسے دکھایا گیا تو وہ فوراً پہچان گئی کہ یہ تو اسی کا تخت ہے۔ اس حیرت انگیز مظاہرے نے اس کی آنکھیں کھول دیں اور وہ ایمان جو حضرت سلیمان ؑ کی پہلی دعوت پر اسے اپنی رمق دکھا گیا تھا، ا س کے دل میں پوری طرح جاگزیں ہوگیا۔ چناں چہ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آپ کا تخت ہے؟ تو وہ بول پڑی: ’’کَاَنَّہٗ ھُوَج وَ اُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِھَا وَ کُنَّا مُسْلِمِیْنَo (النمل: ۴۲) ’’یہ تو گویا وہی ہے۔ ہم تم پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم نے سر ِ اطاعت جھکا دیا تھا۔‘‘ پھر جب اس نے شیش محل کی حیرت انگیز تعمیر کا مشاہدہ کیا تو بے اختیار اپنے قبول اسلام کا اعلان کردیا: قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَoع (النمل:۴۴)
مولانا مودودیؒ نے اس واقعے کے سلسلے کے بعض اشکالات کا جواب اپنے ایک مضمون میں دیا ہے، اسے تفہیمات، جلد دوم (ص: ۵۹- ۷۱) میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔