قضائے عمری اور فرضیت ِ نماز کی عمر

میں نے اپنے اندازے سے طے کیا تھا کہ میری نمازیں دس سال تک قضا ہوئی ہیں ۔ میں احتیاطاً گیارہ سال سے قضائے عمری کی نمازیں ادا کر رہا ہوں ۔ کیا میں اب سمجھ لوں کہ میری چھوٹی ہوئی نمازیں ادا ہوگئیں ؟ نیز یہ بھی بتلائیے کہ نماز کتنی عمر میں فرض ہوتی ہے؟
جواب

دین اسلام میں نماز کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ کسی شخص کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کا عملی اظہار نماز کے ذریعے ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے نماز کو ایمان اور کفر و شرک کے درمیان حد ِ فاصل قرار دیا ہے۔ فرمایا:
اِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلاَۃِ۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ، حدیث:۸۲)
’’آدمی (کے ایمان) اور شرک و کفر کے درمیان نماز (پڑھنے) اور نہ پڑھنے کا فاصلہ ہے۔‘‘
جس شخص کو نماز کی اس اہمیت کا احساس ہو اس کے نزدیک ایک نماز کا چھوٹ جانا اپنی عزیز ترین چیزوں ، اہل و عیال اور مال و دولت سے محرومی کے برابر ہوگا۔ اس کی ترجمانی رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے:
اَلَّذِیْ تَفُوْتُہٗ صَلاَ ۃُ الْعَصْرِ کَاَنَّمَا وُتِرَ اَھْلَہٗ وَ مَالَہٗ۔
(صحیح بخاری، کتاب المواقیت، باب اثم من فاتتہ العصر، حدیث:۵۵۲، صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب التغلیظ فی تفویت العصر، حدیث :۶۲۶)
’’جس شخص کی ایک عصر کی نماز چھوٹ جائے گویا وہ اپنے اہل و عیال اور مال و دولت سے محروم ہوگیا۔‘‘
ایک غزوہ سے واپسی پر صحابۂ کرام نے رات کے آخری پہر پڑاؤ ڈالا۔ سب کی آنکھ لگ گئی یہاں تک کہ دن نکل آیا (اس شب کو لیلۃ التعریس کا نام دیا گیا ہے) صحابہ کو بڑی گھبراہٹ اور پشیمانی ہوئی اور اپنی کوتاہی کا احساس ہوا۔ اس موقعے پر نبی ﷺ نے فرمایا:
لاَ تَفْرِیْطَ فِی النَّوْمِ،اِنَّمَا التَّفْرِیْطُ فِی الْیَقَظَۃِ۔(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فیمن نام عن الصلاۃ او نسیھا حدیث: ۴۳۷، مزید ملاحظہ کیجئے صحیح بخاری، حدیث: ۵۹۵، ۷۴۷۱، صحیح مسلم، حدیث: ۶۸۱)
’’سوتے رہنے کی وجہ سے نماز چھوٹ جائے تو اس میں کوتاہی نہیں ہے۔ کوتاہی یہ ہے کہ آدمی بیداری کی حالت میں (جانتے بوجھتے) نماز چھوڑدے۔‘‘
اگر کسی شخص کی نماز سونے یا غفلت کی وجہ سے چھوٹ جائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ بیدار ہونے پر یا متنبہ ہوتے ہی اسے ادا کرلے۔ آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
اِذَا نَسِیَ اَحَدُکُمْ صَلاَ ۃً اَوْ نَامَ عَنْھَا فَلْیُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا۔ (سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی النوم عن الصلاۃ، حدیث:۱۷۷، سنن النسائی، کتاب المواقیت، باب فیمن نام عن صلاۃ، حدیث: ۶۱۵)
’’کوئی شخص نماز ادا کرنا بھول جائے یا سوتا رہ جائے تو جوں ہی اسے یاد آئے فوراً ادا کرلے۔‘‘
کیا فرائض کے ساتھ سنن کی بھی قضا کی جائے گی؟ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چھوٹی ہوئی نمازیں کم ہوں تو سنتوں کی قضا کرلینا بہتر ہے۔ لیکن اگر ان کی تعداد زیادہ ہوتو صرف فرض نمازوں کی قضا کرلینا کافی ہے۔ لیلۃ التعریس میں صحابۂ کرام کے ساتھ آپؐ کی فجر کی نماز چھوٹ گئی تو آپؐ نے فرض اور سنت دونوں کی قضا کی اور غزوۂ خندق کے موقعے پر آپؐ کی چار نمازیں چھوٹ گئیں تو آپؐ نے صرف فرائض کی قضا کی۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ،۲۲/۱۰۴)
اگر کوئی مسلمان جان بوجھ کر کچھ عرصے تک نماز نہ پڑھے، پھر اسے اپنی غلطی کا احساس ہو تو وہ کیا کرے؟ کیا چھوٹی ہوئی ہوئی نمازوں کی قضا لازم ہے یا اس کوتاہی کی تلافی محض توبہ سے ہوجائے گی؟ جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ جب بھول کر سونے کی وجہ سے نماز چھوٹ جانے پر قضا واجب ہے تو جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر قضا کا وجوب بہ درجۂ اولیٰ ہوگا۔ وہ اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں ، جس میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو رمضان کا ایک روزہ توڑدینے پر اس کی قضا کی ہدایت فرمائی تھی۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ، ۳۴/۲۶-۲۷) فقہاء یہ بھی کہتے ہیں کہ ترک ِ نماز کا گناہ ختم ہونے کے لیے قضا اور توبہ دونوں ضروری ہیں ۔ اس کے لیے ان میں سے کوئی ایک کفایت نہیں کرتا۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، عبد الرحمن الجزیری، ۱؍۴۹)
قضا کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کا اندازہ لگائے، پھر اپنی ہر فرض نماز کے بعد کچھ نمازیں قضا کی نیت سے ادا کرلیا کرے، یہاں تک کہ اس کو اپنی تمام چھوٹی ہوئی نمازوں کے ادا ہوجانے کا یقین یا ظن ِ غالب ہوجائے۔
بعض علماء کہتے ہیں کہ جان بوجھ کر چھوڑی گئی نمازوں کی قضا نہیں ہے، اس کوتاہی پر آدمی بارگاہِ الٰہی میں توبہ کرے اور ان کی تلافی کے لیے کثرت سے نوافل پڑھے۔ اس نقطۂ نظر کے حاملین میں داؤد ظاہریؒ، ابن حزمؒ اور ابن عبد الرحمن الشافعیؒ قابلِ ذکر ہیں ۔
مولانا مودودیؒ نے ایک سوال کے جواب میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا ہے۔ اس جواب پر ایک صاحب نے اپنے اشکالات رکھے تو مولانا نے انھیں یہ جواب دیا:
’’پہلے میں خود بھی یہی خیال رکھتا تھا کہ جاہلیت کی حالت میں ، جو نمازیں قصداً یا غفلت سے چھوڑی گئی ہیں ان کے لیے صرف توبہ کافی ہے اور ان کی قضا واجب نہیں ۔ لیکن تحقیق کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اگر آدمی کافر نہ تھا، صرف جہالت اور غفلت کی بنا پر تارکِ نماز رہا، تو اس کے لیے صرف توبہ کافی نہیں ، بلکہ پچھلی نمازوں کی قضا بھی کرنی چاہیے۔‘‘ (رسائل و مسائل، ۳/۲۱۵-۲۱۶)
مولانا مودودیؒ نے آگے علامہ ابن تیمیہؒ کا حوالہ دیا ہے او ران کی جانب بھی یہی بات منسوب کی ہے، لیکن یہ نسبت صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے اس معاملے میں فقہاء کے اختلاف کا تذکرہ کردیا ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ۲۲/۱۸،۱۰۳) بلکہ ان کی بعض تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا رجحان جان بوجھ کر چھوڑی گئی نمازوں کی قضا کے عدم وجوب کی طرف ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
فَاِنَّ الرَّجُلَ قَدْ یَعِیْشُ مُدَّۃً طَوِیْلَۃً لاَ یُصَلِّیْ وَلاَ یُزَکِّیْ وَ قَدْ لاَ یَصُوْمُ اَیْضًا… وَغَیْرُ ذٰلِکَ، فَھُوَ فِیْ جَاھِلِیَّۃٍ اِلاَّ اَنَّہٗ مُنْتَسِبٌ اِلَی الْاِسْلاَمِ، فَاِذَا ھَدَاہُ اللّٰہُ وَ تَابَ عَلَیْہِ، فَاِنْ اُوْجِبَ عَلَیْہِ قَضَائَ جَمِیْعِ مَا تَرَکَہٗ مِنَ الْوَاجِبَاتِ… صَارَتِ التَّوْبَۃُ فِیْ حَقِّہٖ عَذَابًا۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ۲۲/۲۱-۲۲)
’’بسا اوقات آدمی طویل عرصے تک نماز، زکوٰۃ، روزہ وغیرہ سے بے پروا ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ بہ ظاہر مسلمان ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ جاہلیت کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ اب اگر اللہ اسے ہدایت دے اور اسے توبہ کی توفیق ملے تو اگر اس پر تمام چھوٹی ہوئی واجبات کی قضا لازم کردی جائے تو توبہ اس کے حق میں عذاب بن جائے گی۔‘‘
جہاں تک فرضیت ِ نماز کی عمر کا سوال ہے۔ اس سلسلے میں جمہور فقہاء بلوغ کو حد قرار دیتے ہیں ۔ البتہ اس سے قبل بھی بچوں کو نماز کی تلقین کی جائے گی اور نہ پڑھنے پر سختی کی جائے گی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے کہ بچہ سات سال کا ہوجائے تو اس سے نماز پڑھنے کو کہا جائے اور دس سال کا ہوجائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کی سرزنش کی جائے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب متی یومر الغلام بالصلا ۃ، حدیث: ۴۹۴، سنن الترمذی، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء متی یومر الصبی بالصلاۃ، حدیث: ۴۰۷)البتہ امام احمدؒ اس حدیث کی بنا پر فرضیت نماز کی عمر دس سال قرار دیتے ہیں ۔ (المغنی، ابن قدامۃ، ۱/۳۹۹، الموسوعۃ الفقھیۃ، ۳۴/۲۸-۲۹)