قنوتِ نازلہ کتنے دن پڑھی جائے؟

 فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے موقع پر بہت سی مساجد میں قنوتِ نازلہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس جارحیت کو ساڑھے تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قنوتِ نازلہ زیادہ سے زیادہ کتنے دن پڑھی جا سکتی ہے؟ اس کی کوئی حد ہے یا امام کی صواب دید پر ہے کہ وہ جتنے دن چاہے، پڑھ لے؟

جواب

ظلم و ستم کے شکار مسلمانوں کے لیے دعا اور ان پر شدائد و مظالم کرنے والوں پر بد دعا کے لیے قنوتِ نازلہ پڑھنا اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت ہے۔ آپؐ نے قنوتِ نازلہ نمازِ فجر میں پڑھی ہے اور دیگر نمازوں میں بھی۔

ہجرتِ مدینہ کے موقع پر قریش کے لوگوں نے بعض کم زور مسلمانوں کو مکہ میں زبردستی روک لیا تھا، انھیں مدینہ ہجرت نہیں کرنے دی تھی اور ان کو مختلف اذیتوں سے دوچار کرتے تھے۔ ایسے مسلمانوں میں ولید بن الولیدؓ، سلمہ بن ہشامؓ اور عیاش بن ربیعہؓ وغیرہ کا نام سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کی نجات کے لیے قنوتِ نازلہ پڑھی، جس میں مشرکوں کے لیے بد دعا بھی کی۔ (بخاری: ۳۳۸۶، مسلم: ۴۱۴)

۴ھ میں بئر معونہ کا حادثہ پیش آیا۔ کچھ قبیلوں (رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان) کے وفود خدمت ِ نبوی میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ ان کے ساتھ کچھ افراد کو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے بھیج دیا جائے۔ آپؐ نے ان کی درخواست قبول کی اور ستّر(۷۰) منتخب صحابہ ٔ کرام کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ ان لوگوں نے دھوکہ دیا اور راستے میں سب کو قتل کر دیا۔ اس حادثہ سے اللہ کے رسول ﷺ کو سخت صدمہ ہوا۔ آپؐ نے مسلسل ایک ماہ تک فجر کی نماز میں قنوت ِ نازلہ پڑھی۔ (بخاری: ۴۰۹۰)

قنوت ِ نازلہ کتنے دن پڑھی جائے؟ اس سلسلے میں شریعت میں کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مدت کی تعیین نہیں کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بئر معونہ کا واقعہ پیش آنے پر ایک ماہ تک اس کا اہتمام کیا تھا۔ بعض دیگر مواقع پر آپؐ سے اس سے کم مدت تک پڑھنا ثابت ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ امام جتنے دن چاہے قنوت ِ نازلہ پڑھ سکتا ہے۔ ایک ماہ سے کم بھی اور اس سے زیادہ بھی۔

 

 

کسی جگہ عارضی طور پر نماز پڑھنے سے وہ جگہ مسجد نہیں ہوجاتی