مائیکرو فائنانس سوسائٹی میں سروس چارج کی وصولی

آج سے تقریباً پانچ برس قبل ہم پچیس(۲۵) احباب نے مل کر فیصلہ کیا کہ سودی قرض کی لعنت سے بچنے کے لیے ایک بلا سودی نظام قائم کیا جائے۔ ہر ایک نے دو ہزار روپے جمع کیے۔ پچاس ہزار روپے جمع ہوئے۔ ہر ضرورت مند ممبر کو بیس ہزار روپے تک بلا سودی قرض لینے کا اختیار دیا گیا۔ دو ممبر کسی اجرت کے بغیر حساب کتاب رکھتے تھے۔ گذشتہ برس طے کیا گیا کہ اس کام کو بڑھایا جائے، اسے بلا سودی سوسائٹی کی شکل دی جائے، اسے رجسٹرڈ کروالیا جائے اور جمہوری طریقے سے اس کے ذمے داروں کا انتخاب ہو، اس کا ایک آفس ہو اور حساب کتاب رکھنے کے لیے حسب ضرورت ملازمین رکھے جائیں۔ اس پر عمل کیا گیا۔ سیٹ اپ ہوجانے کے بعد اب اخراجات میں اضافہ ہوگیا ہے، مثلاً آفس کا کرایہ، بجلی اور انٹرنیٹ بل، ملازمین کا مشاہرہ، اسٹیشنری وغیرہ۔ ان کی تکمیل کے لیے پہلے طے کیا گیا کہ بورڈ آف ڈائرکٹرس ہی ماہانہ تعاون کریں گے، لیکن ان سے ملنے والی رقم کافی نہیں ہوئی تو فیصلہ کیا گیا کہ ممبروں سے سروس چارج وصول کیا جائے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ فی الحال سروس چارج آٹھ فی صد (8%) وصول کریں گے، جس سے سوسائٹی کے اخراجات پورے کیے جائیں گے۔ اخراجات سے زائد رقم جمع ہوئی تو سروس چارج کا فی صد کم کردیں گے، یا بچی ہوئی رقم ممبروں کو واپس کردیں گے۔ بعض حضرات بلا سودی قرض پر سروس چارج لینے کو ناجائز کہہ رہے ہیں۔ وہ اسے سود ہی کی ایک شکل کہتے ہیں۔ براہ کرم ہماری رہ نمائی فرمائیں۔ کیا ہماری یہ اختیار کردہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

جواب

آپ کا استفتا موصول ہوا، جس میں آپ نے مائیکروفائنانس سوسائٹی چلانے کے لیے سروس چارج وصول کرنے کے معاملے میں رہ نمائی چاہی ہے۔ اس سلسلے میں چند باتیں عرض ہیں:

۱۔ آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا یہ جذبہ قابل ِ قدر ہے کہ لوگوں کو سود کی لعنت سے بچانے کے لیے ایک بلاسودی نظام قائم کیاجائے۔ اسی جذبے کے تحت آپ حضرات نے یہ سوسائٹی شروع کی ہے۔

۲۔ ضروری ہے کہ یہ نظام سود اور شبہ سود سے بالکل پاک ہو، ورنہ سود پر مبنی نظام اور ہمارے قائم کردہ نظام میں فرق ہی کیارہ جائے گا۔ قرض پر اضافی رقم لینا سود کہلاتاہے۔ اس لیے آئیڈیل تویہ ہے کہ قرض پر اضافی رقم بالکل نہ لی جائے، البتہ نظام کو چلانے کے لیے جو کچھ اخراجات آئیں توانہیں وصول کرنے کی گنجائش ہے۔

۳۔ اخراجات دو طرح کے ہوتے ہیں : ایک بلا واسطہ، مثلاً قرض کے مقابلے میں استعمال ہونے والی اسٹیشنری، اس رقم کو اداکرنے پر آنے والا خرچ، رقم کی عدم ادائیگی کی صورت میں وصولی پر آنے والے اخراجات وغیرہ۔ دوسرے بالواسطہ، جیسے آفس کرایہ، فرنیچر، گاڑی، ملازمین کا مشاہرہ، بجلی اور ٹیلی فون کے بل اور آفس کے معمول کے دیگر اخراجات۔ بلا واسطہ آنے والے اخراجات کو قرض پر فیس(سروس چارج) کے ذریعے پوراکیے جانے پر فقہاکا اتفاق ہے، البتہ بالواسطہ اخراجات کی تکمیل سروس چارج کے ذریعے کرنے پر ان کے درمیان اختلاف ہے۔ زیادہ تر فقہا اسے ناجائز قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض جائز کہتے ہیں۔ اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ یہ مصارف کم از کم اور ناگزیر صورت میں ہوں۔

۴۔ سروس چارج کم سے کم رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اس میں سے جو رقم بچ جائے اسے قرض لینے والوں کو واپس کردیناچاہیے۔ اس کی بھی شعوری کوشش ہونی چاہیے کہ قرض پر فیس کی شرح آہستہ آہستہ کم کی جاتی رہے، یہاں تک کہ بالکل ختم ہوجائے اور کوئی فیس نہ لی جائے۔ نظام کو چلانے کے لیے اخراجات یاتو اصحاب ِ خیر کے مالی تعاون سے پورے کیے جائیں، یا اس کے لیے شرکت، مضاربت، اجارہ اورمرابحہ سے ہونے والے منافع کو استعمال کیاجائے۔