مرض سے شفایابی پرقربانی

ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’عام حالات میں حلال جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھایا جاسکتا ہے اور بہ طورصدقہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے ‘‘ پھر اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ ’’ کسی مناسبت سے، مثلاً مرض سے شفایابی پرجانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کیاجاسکتا ہے۔‘‘ یہ بات صحیح نہیں  معلوم ہوتی ۔ جانور ذبح کرکے اسے کھانے یا ذبح شدہ جانور کے گوشت کوبہ طور صدقہ تقسیم کرنے میں کوئی کلام نہیں ، البتہ سوال یہ ہے کہ کسی مناسبت سے جانور کوبہ طور تقرب یابہ غرض ثواب ذبح کرنا درست ہے یا نہیں ؟ جیسا کہ یہ عام رواج بنتاجا رہاہے کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ گیا تو اس کے بعد قربت کی نیت سے وہ جانور ذبح کرتا ہے اورخون بہانے کو کارثواب سمجھتا ہے اوراسے جان کی حفاظت کا بدلہ قراردیتا ہے۔ جہاں  تک مجھے معلوم ہے کہ بہ غرضِ ثواب جانور ذبح کرنا صرف دو موقعوں پر ثابت ہے: ایک عید قرباں میں ، دوسرے عقیقہ میں ۔ الّا یہ کہ دیگر اعمال صالحہ کی طرح کوئی شخص جانور ذبح کرنے کی نذرمان لے تو بہ حیثیت نذر درست ہے، کیوں کہ کسی بھی عمل صالح کوبہ شکل نذر اپنے ذمے لازم کرنا اور اسے ادا کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور موقع پربہ طور تقرب جانور ذبح کرنا ثابت نہیں  ہے اور تعبّدی امور میں قیا س درست نہیں ۔
جواب

حلال جانوروں  کا گوشت کھانا اور کھلاناعام حالات میں  ،بغیرکسی مناسبت کے جائز ہے۔ اسی طرح کسی مناسبت سے بھی اس کا جواز ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی مرض سے شفا پاجائے تو بہ طورشکر انہ وہ جانورذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کرسکتا ہے ۔ فقہائے کرام نے اسے جائز قراردیا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد فتاویٰ موجود ہیں ۔
شیخ محمد صالح المنجد عالم اسلام کے مشہور فقیہ اورمفتی ہیں ۔ انٹرنیٹ پرIslamqa کے نام سے موجود سائٹ پرا ن کے فتاویٰ موجود ہیں ۔ فتویٰ نمبر ۱۰۷۵۴۹ کے مطابق ایک شخص نے یہ سوال کیا تھا: ’’میرا چچازاد ایک حادثے میں  زخمی ہوگیا ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بچنے کی پچاس فیصد امید ہے ۔ ہمیں  کسی نے نصیحت کی کہ ایک بکری اللہ کے لیے ذبح کردو ، توکیا ہمارے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا؟‘‘
اس کا انھوں نے یہ جواب دیا:
’’اگر اللہ کے لیے ذبح کرنےکے بعد اس گوشت کے کچھ حصے کو فقراء اورمساکین پر تقسیم کرنا مقصود ہوتو اس میں  کوئی حرج نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا : داؤوامرضا کم بالصدقۃ (اپنے مریضوں  کا علاج صدقہ سے کرو)۔ ابودائود نے اسے مراسیل میں ذکر کیاہے اورطبرانی اوربیہقی وغیرہ نے اسے متعدد صحابہ کرام ؓ سے روایت کیا ہے۔ اس کی تمام تراسانید ضعیف ہیں ، جب کہ البانی ؒ نے اسے صحیح ترمذی(۷۴۴) میں  حسن لغیرہ قراردیا ہے۔‘‘ آگے انھوں نے دو فتاویٰ بھی نقل کیے ہیں :
دائمی کمیٹی برائے فتویٰ کے علمائے کرام سے پوچھا گیا: برائے مہربانی حدیث: ’’دَاوُوامَرْضَا کُمْ بِالصَّدَقَۃِ (اپنے مریضوں  کا علاج صدقہ سے کرو) کا مطلب سمجھا دیں ، جسے بیہقی نے السنن الکبریٰ(۳؍۳۸۲) میں  بیان کیا ہے، لیکن اکثر محدثین کرام مریض کے علاج میں جانور کو ذبح کرنے کے حوالے سے اسے ضعیف قراردیتے ہیں ، تو کیا مریض سے مصیبت ٹالنے کے لیے ایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟
اس سوال کا انھوں  نے یہ جواب دیا:
’’مذکورہ حدیث درست نہیں ہے ، لیکن مریض کی جانب سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور شفایابی کی امید رکھتے ہوئے صدقہ کرنے میں  کوئی حرج نہیں ، اس لیے کہ صدقہ کی فضیلت میں  بہت سے دلائل موجود ہیں اورصدقہ سے گناہ مٹادیے جاتے ہیں اور بری موت سے انسان دور ہوجاتا ہے۔‘‘ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ۲۴:؍۴۴۱)
شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’صدقہ مفید اور سود مند علاج ہے ۔اس کے باعث بیماریوں سے شفا ملتی ہے اور مرض کی شدت میں  کمی بھی واقع ہوتی ہے ۔اس بات کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (صدقہ گناہوں  کو ایسے مٹادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھادیتا ہے) سے ہوتی ہے ۔ اسے احمد(۳؍۳۹۹) نے روایت کیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ مرض گناہوں کی وجہ سے سزاکے طورپر لوگوں کو لاحق ہوجاتے ہوں ، توجیسے ہی مریض کے ورثاء اس کی جانب سے صدقہ کریں تو اس کے باعث اس کا گناہ دھل جاتا ہے اوربیماری جاتی رہتی ہے ، یا پھر صدقہ کرنے کی وجہ سے نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں ، جس سے دل کو سکون اورراحت حاصل ہوتی ہے اور اس سے مرض کی شدت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔‘‘ (الفتاویٰ الشرعیۃ فی المسائل الطبیۃ ، جلد ۲، سوال نمبر ۱۵)
آخرمیں شیخ المنجد نے لکھا ہے:
’’چنانچہ اللہ کے لیے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس قربانی کا مقصد مریض کی جانب سے شفا کی امید کرتے ہوئے صدقہ کرنا ہے، جس سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ  اسے شفادے گا۔‘‘
ہندوستان کے مشہور فقیہ اورمفتی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے دریافت کیاگیا: ’’اگر کوئی شخص بیمار پڑا تو اس کے گھروالے اس کے اچھے ہونے کے بعدجان کی زکوٰۃ میں  بکرا ذبح کرتے ہیں ۔ یہ گوشت گھروالے کھاسکتے ہیں یانہیں ؟
اس سوال کا انھوں نے یہ جواب دیا:
’’اگر صحت مند ہونےسے پہلے نذر مانی ہوکہ صحت حاصل ہونے پر میں بکر ا ذبح کروں  گا تو یہ نذر کی قربانی ہے۔ یہ ان لوگوں کو کھلایا جاسکتا ہے جن کو نذر ماننے والا زکوٰۃ دے سکتا ہو۔ اور اگر پہلے سے نذر نہیں مانی تھی ، بلکہ صحت مند ہونے کے بعد اظہار مسرت کے لیے قربانی کی تو یہ شکرانہ کی قربانی ہے ۔ اس کا گوشت خود بھی کھاسکتا ہے اور دوسرے اہل تعلق کو بھی کھلایا جاسکتا ہے۔‘‘ (کتاب الفتاویٰ، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، ۲۰۰۵ء: ۴؍۱۳۸، فتویٰ نمبر ۱۳۰۶)
پاکستان کی مشہور درس گاہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹائون، کراچی کے مفتی مولانا محمد انعام الحق قاسمی نے لکھا ہے:
’’مریض کی صحت کی نیت سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کوئی جانور ذبح کرنا جائز ہے، البتہ زندہ جانور کا صدقہ کردینا زیادہ بہترہے۔‘‘
(قربانی کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا، بیت العمارکراچی، سنہ طباعت ندارد، ص ۹۶)
خلاصہ یہ کہ کوئی شخص کسی جان لیواحادثہ سے بچ جائے یا کسی موذی مرض سے شفا پاجائے تو اس کے بعد اس کا کسی جانور کا خون بہانے کو کارثواب سمجھنا اوراسے جان کی حفاظت کا بدلہ قراردینا تو غلط ہے، لیکن بہ طور شکرانہ زندہ جانور کو صدقہ کرنا یا اسے ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا دونوں صورتیں  درست ہیں ۔