نکاح و طلاق و خلع و ازدواجی معاملات
ہمارے علاقے میں ایک عجیب طرح کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک صاحب نے کسی بات پر ناراض ہوکر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ ’’تم میرے لیے حضرت فاطمہؓ کے برابر ہو۔‘‘ بعد میں وہ پشیمان ہوئے۔ مقامی علماء سے مسئلہ معلوم کیا۔ بعض علماء کی یہ رائے سامنے آئی کہ اس جملے سے ظہار ثابت ہوگیا۔ اب بیوی اس شخص پر حرام ہوگئی۔ظہار کا مسئلہ قرآن میں سورۂ مجادلہ کے شروع میں بیان ہوا ہے۔ میں نے بعض کتب ِ تفسیر سے رجوع کیا، لیکن مسئلہ منقح ہوکر میرے سامنے نہ آسکا۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ لیکن انھوں نے اس سلسلے میں فقہاء کے اختلافات بیان کردیے ہیں ۔ اپنی طرف سے کوئی قطعی بات نہیں لکھی ہے۔ میری نظر میں ظہار میں صرف خونی رشتے ماں ، بہن، بیٹی ، خالہ، پھوپھی وغیرہ یا رضاعت کے رشتے ہی آتے ہیں ۔ اس میں عام عورتوں کو بھی شامل کرنا نصِّ قرآن کے خلاف ہے۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا صورت مسئولہ میں ظہار ثابت ہوگیا؟
جواب
آپ نے جو مسئلہ دریافت کیا ہے اس پر میں نے بھی غور کیا اور یہاں کے چند علماء سے بھی رجوع کیا۔ سب کی رائے ہے کہ کسی شخص کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ ’’تم میرے لیے حضرت فاطمہؓ کے برابر ہو۔‘‘ مسئلہ ظہار کو ثابت نہیں کرتا۔ آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ ’’ظہار میں صرف خونی رشتے، ماں ، بہن، بیٹی، خالہ، پھوپھی وغیرہ یا رضاعت کے رشتے ہی آتے ہیں ۔ اس میں عام عورتوں کو بھی شامل کرنا نصِّ قرآن کے خلاف ہے۔‘‘
مذکورہ شخص نے ایک لغو اور بے ہودہ بات کہی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور بیوی کی بدخلقی کے باوجود اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
لاَ یَفْرَکُ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَۃً، اِنْ کَرِہَ مِنْھَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْھَا آخَرَ۔ (مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء، حدیث: ۱۴۶۹)
’’کوئی مومن (مرد) کسی مومن عورت (بیوی) سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی کوئی ایک عادت اسے ناگوار ہوگی تو دوسری اسے پسند آئے گی۔‘‘