مسجد میں غیر مسلم اور وراثت کے چند مسائل

 ہم نے اپنے محلے کی مسجد میں ‘مسجد پر یچے‘ کاپروگرام کیا۔ برادرانِ وطن مردوں اور خواتین کو مدعو کیا۔ وہ کافی تعدادمیں آئے۔ ان کے سامنے اسلام کا تعارف کرایا۔ وضو، نماز، روزہ وغیرہ کے بارے میں بتایا۔ نماز میں ہم کیاپڑھتے ہیں، یہ بھی بتایا۔ انھوں نے مسجد میں لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آخرمیں ان کو سوالات کا موقع دیاگیا۔ ان کے سوالات کے جواب دیے گئے۔ اس پروگرام پر ان لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا، متاثرہوئے او رکہاکہ ہمیں یہ سب باتیں پہلی بارمعلوم ہوئی ہیں۔

محلے کے بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ انھوں نے کہاکہ برادران ِ وطن میں پاکی کا احساس نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں انھیں ’ناپاک’ کہا گیا ہے اور مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکاہے۔ مزید برآں مسجد میں برادران ِ وطن کی عورتوں کو نہیں بلاناچاہیے۔ ان میں حجاب کا تصور نہیں ہے اور طہارت کا بھی۔ ایسے پروگرام اگرکرنے ہوں تومسجد کے سوا کہیں اور کرنے چاہئیں۔

براہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ کیاہمارایہ عمل غلط تھا؟کیامسجد پریچے کے پروگرام مسجد میں نہیں کرنے چاہئیں ؟

جواب

اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں برادرانِ وطن میں بہت زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ طویل عرصہ سے ساتھ میں رہنے کے باوجود ان کے درمیان گہری خلیج حائل ہے۔ ان کی غلط فہمیاں دورکرنے کے لیے کی جانے والی کوششیں پسندیدہ اور موجودہ وقت کی ضرورت ہیں۔ مساجد کے بارے میں بھی وہ غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ان میں سے بعض سمجھتے ہیں کہ وہاں مسلمانوں کو پُرتشدد اور تخریبی کارروائیاں کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ انھیں مسجد میں بلانے اور وہاں ان کے سامنے اسلام کی تعلیمات بیان کرنے اور نماز کا مشاہدہ کرانے سے ان کی غلط فہمیاں دورکرنے میں مدد ملے گی۔ اس لیے‘مسجد پریچے‘ کے پروگرام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا (التوبة: ۲۸)

’’اے ایمان والو!بے شک مشرک نجس (ناپاک) ہیں۔ لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔ ‘‘

اس آیت میں مشرکوں کو‘ نجس’ کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب ظاہری نجاست نہیں، بلکہ معنوی نجاست یعنی کفروشرک ہے۔ علما نے یہ بات صراحت سے کہی ہے۔ علامہ ابوبکر جصاصؒ فرماتے ہیں :

’’مشرک پر اسم‘ نجس‘ کا اطلاق اس پہلو سے ہے کہ شرک سے (جس پر کہ اس کا عقیدہ ہے) اسی طرح اجتناب ضروری ہے جس طرح نجاست اور گندگیوں سے پرہیز لازمی ہے، اسی لیے انھیں نجس کہاگیاہے۔ ‘‘(احکام القرآن، طبع مصر۱۳۴۷ھ، ۳؍۱۰۸)

علامہ شوکانی ؒنے لکھاہے:

’’جمہور سَلَف وخَلَف کا، جن میں ائمہ اربعہ بھی داخل ہیں، یہ مسلک ہے کہ کافر اپنی ذات میں نجس نہیں ہوتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے حلال کیے ہیں اور نبی ﷺ کے قول و عمل سے ثابت ہوتاہے کہ وہ اپنی ذات میں نجس نہیں ہے۔ آپؐ نے ان کے برتنوں میں کھایاہے۔ ان میں پانی پیاہے، ان سے وضو فرمایاہے اور انھیں اپنی مسجد میں ٹھہرایاہے۔ ‘‘(فتح القدیر، طبع بیروت، ۱۹۹۴ء، ۲؍۴۴۶)

امام نوویؒ نے بھی اس موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال کیاہے۔ لکھتے ہیں :

’’کافر کا حکم بھی طہارت اور نجاست میں مسلمان ہی جیساہے۔ یہی ہمارا(شوافع) اور جمہور سلَف وخلَف کا مسلک ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ مشرک نجس ہیں، تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے اعضائے جسم پیشاب پاخانہ جیسی چیزوں کی طرح نجس ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ آدمی طاہر ہے، چاہے وہ مسلمان ہویاکافر تواس کا پسینہ، لعاب اور آنسوبھی پاک ہیں، چاہے وہ بے وضو ہویاجنابت کی حالت میں۔ عورت حیض اور نفاس کی حالت میں ہوتوبھی پاک ہے۔ ان سب باتوں پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ ‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد۲، جزء۲، ص۶۶)

عہد ِنبوی کے متعدّد واقعات سے غیر مسلموں کے مسجد میں داخلے کا ثبوت ملتاہے۔ غزوہ بدرکے بعد عمیر بن وہب اللہ کے رسولؐ کو (نعوذ باللہ)قتل کرنے کے ارادے سے مدینہ گئے۔ نبی ﷺ مسجد میں تھے۔ انھوں نے مسجد میں جاکر آپؐ سے ملاقات کی اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسلام قبول کرلیا۔ صلح  حدیبیہ کے بعد ابوسفیان تجدید ِ معاہدہ کے ارادے سے مدینہ پہنچے تو اس موقع پر مسجد نبوی میں بھی گئے۔ ثمامہ بن اثال جنگ میں گرفتار ہوئے توانہیں مدینہ لاکر مسجدِ نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیاگیا۔ رسول اللہ ﷺ کے حسن سلوک سے وہ مسلمان ہوگئے۔ قبیلۂ ثقیف کا وفد آپؐ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ اس وقت تک وہ مسلمان نہیں ہواتھا۔ اسے مسجد نبوی میں ٹھہرایاگیا۔ اس طرح کے اور بھی واقعات کتبِ سیرت میں پائے جاتے ہیں۔

مسجد میں مردوں کی طرح عورتیں بھی جاسکتی ہیں۔ ان کے مسجد میں داخلے کی ممانعت نہیں ہے۔

ایسے پروگرام مسجد کے سوادوسرے مقامات پر کیے جاسکتے ہیں اور مسجد میں بھی ان کے انعقاد میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جن حضرات کو‘ مسجد پریچے‘ کے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی جائے ان سے ملاقات کرتے وقت ان کے سامنے مسجد کی عظمت، تقدس اور احترام بیان کردیاجائے تووہ حضرات اس کا خیال رکھیں گے۔ دیکھاگیاہے کہ ایسے پروگراموں میں شرکت کے لیے وہ حضرات بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور نہادھوکر مسجد میں آتے ہیں۔