جواب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو آسان بنانے کی ترغیب دی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے :خَیْرُ النِّکَاحِ اَیْسَرُہٗ (ابوداؤد۲۱۱۷) ’’ بہترین نکاح وہ ہے جو بہت سہولت اورآسانی سے انجام پائے‘‘۔ اسی طرح آپؐ نے اس کا بھی حکم دیا ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے اور اس کی تشہیر کی جائے، تاکہ آبادی کے لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت نکاح کے بندھن میں بندھ گئے ہیں ۔ آپؐ کا ارشاد ہے: اَعْلِنُوْا لنِّکاَح َ(احمد۱۶۱۳۰) ’’نکاح کا اعلان کرو‘‘۔
آج کل مسلم معاشرے میں نکاح کودشوار بنادیا گیا ہے ۔ اس پر اتنا صرفہ آتا ہے کہ اوسط یا معمولی آمدنی والے شخص کواس کے لیے بہت جتن کرنے پڑتے ہیں اورکافی سرمایہ اکٹھاکرنا پڑتا ہے ۔ لڑکی کے نکاح کا معاملہ ہوتو وہ اس کے سرپرست کے لیے اوربھی دشوار اورپریشان کن رہتا ہے ۔ اس لیے کہ برات کی خاطر مدارات، جہیز اور دیگر رسوم کی ادائیگی کے لیے خطیر رقم کی ضرورت پڑتی ہے ، جس کے لیے بسا اوقات قرض تک کی نوبت آجاتی ہے۔
فقہا نے مسجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کو جائزقرار دیا ہے، اس لیے کہ اس سے دونوں فائدے حاصل ہوتے ہیں : ایک تو نکاح بہت سادگی سے انجام پاتا ہے، دوسرے اس کی تشہیر بھی ہوجا تی ہے ، البتہ انھوں نے تاکید کی ہے کہ تقریبِ نکاح کی انجام دہی کے دوران میں مسجد کے تقدس و احترام کا خیال رکھا جائے ، شور وشغب نہ ہو، بلا ضرورت اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کی جائیں ، وغیرہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ کویت ۳۷؍۲۱۴، بہ حوالہ فتح القدیر ، ۲؍۳۴۳۔ ۳۴۴، جواہر الاکلیل ، ۱؍۲۷۵، ۲؍۲۰۳ ، الشرح الکبیر مع حاشیہ الدسوقی ۴۰؍۷۰،المہذب فی فقہ الامام الشافعی ،۱؍۲۰۱، اِعلام الساجد باحکام المساجد ، ز رکشی، ص ۳۶۰، ۳۶۲، تحفۃ الراکع والساجد فی احکام المساجد ، ص ۲۰۸)
اس موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے ، جوام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَعْلِنُوْا ہٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوْا عَلَیْہِ بِالدُّفُوْفِ (ترمذی۱۰۸۹)
’’نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجدوں میں کرو اور اس موقع پر دف بجاؤ‘‘۔
اس حدیث کی سند میں ایک راوی عیسیٰ بن میمون الانصاری کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اسی بنا پر علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس حدیث کوضعیف کہا ہے (فتح الباری ، ۹؍۲۲۶، المکتبۃ السلفیۃ)البتہ اس کا ابتدائی حصہ (نکاح کا اعلان کرو)دیگر روایتوں سے ثابت ہے ، اس لیے صحیح ہے۔
مسجد میں تقریبِ نکاح منعقد کرنے کوحکمِ نبوی ثابت کرنا تو درست نہیں ، لیکن اسے بدعت کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ عہدِ نبوی میں مسجد کونماز کے علاوہ دیگر کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا ، مثلاً تعلیم وتربیت ، معاملات کے فیصلے ، حدود و تعزیرات کا نفاذ وغیرہ۔ اس بناپر اگر مسجد کے ادب واحترام کوملحوظ رکھتے ہوئے اس میں تقریبِ نکاح منعقد کی جائے تو وہ نہ صرف جائز ، بلکہ بعض پہلوؤں سے پسندیدہ ہے۔