مسلم خواتین کی معاشی جدّوجہد

کیا ہمارے ملک میں مسلم خواتین معاشی جدّوجہد کرسکتی ہیں؟ اس سلسلے میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ مضاربت کرتی تھیں۔ کیا رسول اللہ ﷺ سے نکاح کے بعد اور قبول اسلام کے بعد بھی مضاربت کا یہ سلسلہ جاری رہا ؟ یا انھوں نے تجارت ختم کردی تھی؟ براہ ِ کرم وضاحت فرمائیں۔

جواب

اسلام کے عائلی نظام میں گھر کا خرچ چلانے کی ذمے داری مرد پر عائد کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۝۰ۭ                             ( النساء۳۴)

’’مرد عورتوں پر قوّام (نگراں ) ہیں، اس بناپر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناپر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘

لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ عورتوں کو معاشی جدّوجہد کی اجازت نہیں ہے۔ وہ حسب ِضرورت وموقع گھر سے باہر جاکر کوئی تجارت کرسکتی ہیں، صنعت وحرفت میں مشغول ہوسکتی ہیں، یا ملازمت کرسکتی ہیں، بس شرط یہ ہےکہ گھر سے باہر نکلنے کے جو آداب بیان کیے گئے ہیں، ان کی پابندی کی جائے۔

حضرت خدیجہؓ کا شمار مکہ کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان سے نکاح سے قبل اور بعد میں بھی ان کے مال کے ساتھ متعدد اسفار کیے تھے، لیکن کتب سیرت میں نبوت کے بعد آپؐ کی اور ام المؤمنین کی کسی تجارتی سرگرمی کی صراحت نہیں ملتی۔

البتہ بعض دیگر امہات المومنین کے کسبِ مال کا تذکرہ سیروسوانح کی کتابوں میں ملتا ہے۔ مثلاً حضرت سودہ بنت زمعہؓ اور حضرت زینب بنت جحشؓ دونوں کے بارے میں بیان کیاگیا ہے کہ وہ چمڑے کی دباغت کیاکرتی تھیں اور اس سے اچھا خاصا کمالیتی تھیں۔ سوانح نگاروں نے کچھ صحابیات کی بھی معاشی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینب کاری گرخاتون تھیں، چیزیں تیارکرکے فروخت کرتی تھیں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ کی خالہ اپنے کھجورکے باغ میں جاکر کام کرتی تھیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں دوران ِعدّت بھی کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ دومیل دوٗر کھیت میں جاتیں اور وہاں سے کھجور کی گٹھلیاں اور گھوڑے کا چارہ لایا کرتی تھیں۔ موجودہ دور میں مصارف بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ آسائش کی زندگی کی خواہش نے بھی ضرورتوں میں کافی اضافہ کردیا ہے ۔ بسا اوقات مرد کی کمائی پورے خاندان کے لیے کافی نہیں ہوتی،عورت اس کا ہاتھ بٹانا چاہتی ہے۔ خواتین میں بھی خود کفیل ہونے کا جذبہ پیدا ہوگیا ہے۔ و ہ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں، جس کی وجہ سے انھیں روزگار اور ملازمت کےمواقع حاصل ہورہے ہیں۔ تعلیم، صحت اور دیگر میدانوں میں وہ سماج کی خدمت کرنا چاہتی ہیں، جس کی ضرورت بھی ہے۔ اس صورت حال میں خواتین کی معاشی جدّوجہد کو معیوب نہیںقرار دیاجاسکتا۔ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ۔ وہ حدود وآداب کی رعایت کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں سے فائدہ پہنچاسکتی ہیں اور اپنی معاشی حالت کو بہتر بناسکتی ہیں۔