حامد صاحب کا بہت بڑا فارم ہاؤس ہے۔ اس میں وہ نرسری (پودوں) کا بزنس کرتے ہیں۔ ان کا ٹرن اوور(Turn Over) لاکھوں روپے کا ہے۔ انھوں نے اپنے دوست شفیع صاحب سے کہا کہ اگر وہ کچھ سرمایہ بینک میں رکھنے کے بجائے ان کے بزنس میں لگادیں تو انٹرسٹ سے بچے رہیں گے اور کچھ منافع بھی حاصل کرسکیں گے۔ انھوں نے یہ تجویز رکھی کہ اگر شفیع صاحب دس لاکھ روپے مجھے دے دیں تو کل کاروبار میں فروخت (Sale) سے جتنی رقم آئے گی اس کا ایک فی صد منافع وہ دیں گے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میری کل پراپرٹی کی مالیت کتنی ہے؟ مجھے متعین طور پر معلوم نہیں۔ میرا کل سرمایہ کتنا ہے؟ اس کا بھی مجھے اندازہ نہیں ہے۔ اس لیے اپنے اور شفیع صاحب دونوں کے مجموعی سرمایہ سے حاصل ہونے والے منافع میں تناسب کی بنیاد پر منافع نہیں دیا جاسکتا۔ مجھے آسانی اس میں ہے کہ اگر شفیع صاحب مجھے دس(۱۰) لاکھ روپے دے دیں تو ایک مہینے میں جتنی مالیت کی نرسری فروخت ہوگی اس کا ایک فی صد(1%) میں ان کو دے سکتا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ کیا Sale کی بنیاد پرمنافع دیا جاسکتا ہے؟ کیا یہ مشترکہ تجارت درست ہے؟
جواب
تجارت کوئی شخص تنہا کرسکتا ہے اور دو یا دو سے زیادہ افراد مل کر بھی کرسکتے ہیں۔ مشترکہ تجارت کی شریعت میں دو صورتیں بتائی گئی ہیں ایک شرکت، دوسرے مضاربت۔ شرکت یہ ہے کہ تمام شرکا سرمایہ بھی لگائیں اور محنت بھی کریںاور مضاربت کا مطلب یہ ہے کہ شرکا میں سے بعض صرف سرمایہ لگائیں، محنت نہ کریں اور بعض صرف محنت کریں، سرمایہ نہ لگائیں۔ مشترکہ تجارت کی بنیادی شرط یہ ہے کہ تمام شرکا نفع اور خسارہ دونوں میں شریک رہیں گے۔ تجارت سے جو نفع حاصل ہوگا وہ شرکا کے درمیان پہلے سے طے شدہ تناسب سے تقسیم ہوگا اور اگر نقصان ہوا تو مضاربت کی صورت میں مضارب( محنت کرنے والا شریک) کو کچھ نہیں ملے گا، گویا اس کی محنت کا خسارہ ہوگا ،محنت اور وقت کے خسارے کے علاوہ اس پر کوئی تاوان عائد نہیں ہوگا،جب کہ ربّ المال(سرمایہ لگانے والا شریک) کو مال کا خسارہ برداشت کرنا ہوگا۔ اور شرکت کی صورت میں خسارہ تمام شرکا میں حسب حصص تقسیم ہوگا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مشترکہ تجارت درست ہونے کی کئی شرائط ہیں اوّل یہ واضح ہو کہ یہ تجارت شرکت کی بنیاد پر ہے یا مضاربت کی بنیاد پر۔ دوم شرکت کی صورت میں متعین طور پر معلوم ہو کہ ہر شریک نے کتنا سرمایہ لگایا ہے؟سوم پہلے سے طے ہو کہ منافع میں ہر شریک کا کتنا فی صد ہوگا؟چہار م تمام شرکا نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوں۔
تجارت کی جو صورت سوال میں ذکر کی گئی ہے اس میں کئی نقائص ہیں اوّل یہ کہ تجارت میں ایک شریک کا لگا ہوا سرمایہ معلوم ہے، لیکن دوسرے شریک کا سرمایہ متعین نہیں۔ دوم اس میں منافع کا فی صد متعین نہیں۔ فروخت(Sale) کو منافع مان لیا گیا ہے،حالاں کہ فروخت میں سے اخراجات وضع کیے جاتے ہیں، تب منافع بنتا ہے۔سوم اس میں نقصان کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ کاروبار میں نقصان ہونے کی صورت میں کس شریک کو کتنا برداشت کرنا ہوگا؟
اس تجارت کے درست ہونے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو حامد صاحب اپنے کل اثاثے کی مالیت کا اندازہ کریں، اس میں شفیع صاحب کے دس(۱۰) لاکھ روپے شامل کریں اورنفع و نقصان میں دونوں شامل ہوتے ہوئے فی صد/ حصص کا تناسب طے کریں، یاحامد صاحب کاروبار کا کوئی نیا گوشہ شروع کریں، اس میں اپنا اور اپنے شریک کا متعین سرمایہ لگائیں اور اس میں نفع و نقصان کی بنیاد پر شرکت کا معاملہ طے کریں۔وہ آپس میں منافع کاکوئی بھی فی صد طے کر سکتے ہیں۔