جواب
ہمارے ملک میں مشترکہ خاندانی نظام کی جو صورت رائج ہے، اس میں بڑے مفاسد پائے جاتے ہیں ۔نئی نویلی دلہن سے خادم جیسا برتائو کیاجاتا ہے۔ سسر، ساس، نند، دیور اورخاندان کے دیگر افراد کی خدمت کرنا اور ان کی چھوٹی بڑی ضرورتیں پوری کرنا اس کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے اوراس معاملے میں اگر ا س سے کچھ کوتاہی ہوتو اس کو طعنے دیے جانے لگتے ہیں ۔ ازدواجی زندگی میں جو خلوت(Privacy) مطلوب ہوتی ہے وہ بھی متاثر ہوتی ہے۔
بیوی کی ذمے داری اصلاً صرف شوہر کی خدمت ہے۔ البتہ خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ وہ اچھا برتائو کرے گی، ان کے ساتھ محبت سے پیش آئے گی اوران سے خوش گوار تعلقات رکھے گی تو ان کی جانب سے بھی اسے محبت ملے گی اورخاندان کے تمام افراد باہم شیر وشکر ہوکر رہیں گے۔ اسی طرح اگر بیوی کامعاملہ دیگر افراد خاندان سے درست نہ ہوگا، یا وہ لوگ اس کے ساتھ اپنائیت کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو پھر ان کے درمیان ان بن رہے گی اور گھر میں کشیدگی کی فضا قائم رہے گی۔
اگر مشترکہ خاندان میں کئی جوڑے رہتے ہوں تو کوشش کرنی چاہیے کہ ہر جوڑے کی پرائیویسی قائم رہے۔ وہ روزمرہ کے کاموں کو آپس میں اس طرح تقسیم کرلیں کہ کسی کے لیے شکایت کاموقع نہ رہے،باہمی معاملات میں محبت اورایثار کی روش کو اپنائیں اور چھوٹی موٹی شکایتوں کو نظر انداز کریں ۔ لیکن اگر ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے ان میں ان بن رہتی ہو، ایک دوسرے سے شکایت میں اضافہ ہورہا ہو، یہاں تک کہ لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہوتو بیوی کو الگ رہائش فراہم کرنا شوہر کی ذمے داری ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ الگ سے مکان خرید کربیوی کو دے، بلکہ معاشی تنگی کی صورت میں وہ اسے کرایے کامکان فراہم کرسکتا ہے۔ مشترکہ خاندان میں رہتے ہوئے جوڑے باہم لڑتے جھگڑتے رہیں اور تنائو اورکشیدگی کے ساتھ زندگی گزاریں ، اس سے بہتر ہے کہ وہ الگ الگ رہیں اوران کے باہمی تعلقات خوش گوارہوں ۔