زید صاحب (فرضی نام) کا چند برس قبل انتقال ہو گیا۔ ان کے وارثین میں ان کی اہلیہ، سات بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ایک بیٹے کا انتقال ان کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا۔ مرحوم کا دو منزلہ رہائشی مکان ہے، جو ان کی اہلیہ کے نام رجسٹرڈ ہے۔ بہ راہ کرم بتائیں کہ ان کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ اور ورثہ کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟
مرحوم زید صاحب کے ایک بیٹے کا دعوی ہے کہ مکان کی تعمیر میں زیادہ تر پیسہ میرا لگا ہے، اس لیے مکان کی ملکیت میری ہے۔ دیگر بیٹوں اور بیوہ کا کہنا ہے کہ چوں کہ مشترکہ گھریلو نظام تھا۔ تمام بیٹے کچھ نہ کچھ لاکر والد مرحوم کو دیتے رہے تھے اور والد تمام بیٹوں سے رقم لے کر گھر کا نظام چلایا کرتے تھے۔ مکان کی تعمیر میں بھی تمام بیٹوں کا کم و بیش سرمایہ لگا ہے۔ اس بنا پر مکان تمام وارثوں کا ہوگا۔ بیرون ملک رہنے والے بیٹے کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہن کے نکاح کے موقع پر اسے ایک پلاٹ خرید کر دیا گیا ہے، اس میں بھی میری رقم لگی تھی۔ اسی طرح دیگر چھوٹے بھائیوں کی اعلیٰ تعلیم اور شادی بیاہ ان کے خرچ پر ہوئی ہے۔ یہ رقم انہیں واپس کی جائے۔ انہوں نے دورانِ ملازمت مختلف اوقات میں اپنی والدہ کو سونے کے زیورات دیے تھے۔ اب وہ ان کی واپسی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ مدّعی بیٹے اب مستقل طور پر وطن واپس آگئے ہیں۔ معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ اس لیے وہ اس طرح کے دعوے کر رہے ہیں۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں، کیا شرعی طور پر ان کے دعوے درست ہیں ؟ کیا ان کی مطلوبہ رقمیں انہیں واپس کر دی جائیں؟
جواب
زید صاحب اور ان کے اہلِ خاندان کے درمیان جاری تنازعہ کے سلسلے میں پیش کردہ سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
مرحوم زید صاحب کے خاندان میں ان کی اہلیہ، سات لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ ان میں سے ایک لڑکے کا انتقال ان کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا، اس لیے وراثت میں اس کا حصہ نہیں لگے گا۔ اس بنا پر اس (مرحوم لڑکے) کے پس ماندگان کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ البتہ دیگر ورثاء اپنی آزاد مرضی سے انہیں کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
اب وارثوں میں بیوہ، چھ لڑکے اور ایک لڑکی ہیں۔ وراثت میں بیوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ باقی کے تیرہ حصے کیے جائیں گے۔ ہر لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ ملے گا۔ دوسرے الفاظ میں وراثت کی تقسیم اس تناسب سے ہوگی:
12.5% بیوہ کو
80.8% 6x لڑکے کو 13.5%چھ لڑکوں کو
6.7% لڑکی کو
100%
مشترکہ خاندان میں جب لڑکے کمانے لگتے ہیں، وہ اپنی کمائی باپ کو دیں اور باپ اسے اپنی مر ضی سےخرچ کرے تو اسے باپ کا مال سمجھا جائے گا اور باپ کے انتقال کے بعد بہ حیثیت مالِ وراثت اسے تقسیم کیا جائے گا اور تمام ورثہ کا اس میں حصہ لگایا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی لڑکا صراحت کردے کہ فلان چیز کی ملکیت میری ہے، اسے باپ یا کسی اور کو صرف استعمال کرنے کے لیے دے رہا ہوں تو وہ چیز مالِ وراثت سے مستثنیٰ ہوگی۔
اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے انیسویں سمینار منعقد گجرات ۲۰۱۰ء میں منظور ہونے والی تجاویز کی ایک شق یہ ہے:
’’باپ کی موجودگی میں اگر بیٹوں نے اپنے طور پر مختلف ذرائعِ کسب اختیار کیے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ والد کے حوالے کرتے رہے تو اس صورت میں باپ کو ادا کردہ سرمایہ باپ کی ملکیت شمار کی جائے گی۔ (جدید مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، طبع ۲۰۲۴ء، ص ۲۶۴)
اس تفصیل کی روشنی میں بیرونِ ملک ملازمت کرنے والے بیٹے نے اپنے والد کی زندگی میں جو بھی رقمیں انہیں دیں، یا پلاٹ پر مکان تعمیر کروایا، یا اپنی بہن کی شادی کے موقع پر اسے پلاٹ خریدنے کے لیے رقم دی، یا چھوٹے بھائیوں اور بہن کی تعلیم اور شادی بیاہ پر مالی تعاون کیا، یا بھائیوں کو کاروبار سے لگانے کے لیے پیسہ خرچ کیا، یا دوسری سہولیات فراہم کیں، ان سب کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا انہیں حق نہیں ہے۔ اگر انہوں نے والد کی زندگی میں صراحت کردی ہوتی کہ میں جو کچھ دے رہا ہوں، بہ طور قرض دے رہا ہوں تو انہیں اس کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا حق رہتا۔
اسی طرح انھوں نے اپنی والدہ کو وقتاً فوقتاًجو زیورات دیے ہیں انہیں واپس لینے کا انہیں حق نہیں ہے۔ اگر زیورات دیتے وقت انھوں نے صراحت کی ہوتی کہ انہیں میں والدہ کو صرف استعمال کے لیے دے رہا ہوں، ان کی ملکیت میری ہی رہے گی تو وہ واپسی کا مطالبہ کرسکتے تھے۔
عائلی تنازعات کو اگر محبت، خیر خواہی اور ہم دردی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جائے تو انہیں بہ آسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ بیرون ملک ملازمت کرنے والے بیٹے نے اپنے والدین، بھائیوں اور بہن کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں ان شاء اللہ بھر پور اجر ملے گا۔ اسی طرح اگر ان کے اہلِ خاندان یہ پیش نظر رکھیں کہ انھوں نے ہمارے ساتھ بہت کچھ کیا ہے، اگر اب وہ ضرورت مند ہو گئے ہیں تو ان کا تعاون کرنا ہماری ذمہ داری ہے، تو یہ ان کی اعلی ظرفی کی دلیل ہوگی۔ غرض دونوں طرف سے خیر خواہی احسان مندی اور ایثار کا مظاہرہ کیا جائے تو تنازعات اور شکایات کو بہ آسانی دوٗر کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔