جواب
(۱) کسی شخص کی زندگی میں اس کے لڑکوں کی شادی ہوجائے تو وہ اپنی اپنی فیملی کے ساتھ باپ کے گھر بھی رہ سکتے ہیں اور الگ بھی اپنا گھر بسا سکتے ہیں ۔ اسلام میں مشترکہ خاندان کی صرف وہ صورت ناپسندیدہ ہے جس میں کسی جوڑے کا اس کی مرضی سے آزادانہ رہن سہن (Privacy) متاثر ہو۔ لیکن اگر ہر جوڑے کے لیے گھر کا ایک حصہ خاص کر دیا جائے، جس میں کسی دوسرے کا دخل نہ ہو تو تمام لڑکوں کے لیے اپنی اپنی فیملی کے ساتھ ایک بڑے گھر میں رہنے کی گنجائش ہے۔ اس صورت میں گھریلو اخراجات کی تقسیم باہم افہام و تفہیم سے کرلینی چاہیے۔ تاکہ کسی ایک پر بار نہ ہو اور اسے ناگوار ِ خاطر نہ ہو۔ اگر کوئی لڑکا شادی کے بعد الگ رہنے لگے اور مشترکہ خاندان میں شامل نہ ہو تو مشترکہ خاندان کے گھریلو مصارف کے لیے ماہانہ خرچ دینا اس کی ذمے داری نہیں ہے۔
(۲) نابالغ اولاد کی کفالت کی ذمے داری یوں تو باپ پر ہے، لیکن جو لڑکے کمانے لگے ہوں ان کا فرض بنتا ہے کہ باپ کا ہر ممکن تعاون کریں اور اگر اس کی آمدنی کم ہو اور زیر کفالت افراد کی کفالت میں اسے دشواری ہو رہی ہو تو اسے سہارا دیں ۔ اسی طرح اگر باپ کا انتقال ہوگیا ہو تو شادی شدہ اور روزگار سے لگے بڑے بھائیوں کا اخلاقی فرض ہے کہ اپنے چھوٹے اور بے روزگار بھائیوں سے منھ نہ موڑلیں اور انھیں ان کے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کریں ۔
(۳) مشترکہ کاروبار کی صورت میں ضروری ہے کہ ابتدا ہی میں معاملات طے کرلیے گئے ہوں ۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں آگے چل کر بڑے نزاعات شروع ہوجاتے ہیں ۔ شریعت کی تعلیم تو یہ ہے کہ اگر باپ کے کاروبار میں اولاد شریک ہو رہی ہو تو ان کی حیثیت شروع ہی میں متعین کردی جائے کہ وہ کاروبار میں پارٹنر ہیں یا کاریگر یا معاون۔ بھائیوں کے مشترکہ کاروبار میں تو بدرجۂ اولیٰ تمام معاملات صاف ہونے چاہئیں اور ہر فریق کی حیثیت متعین ہونی چاہیے۔ اگر پہلے حیثیتوں کی تعیین اور معاملات کی صفائی نہ ہو پائی ہو تو اب باہم مل بیٹھ کر ہمدردانہ غور کرکے معاملات فیصل کرلینے چاہئیں ۔