مشترکہ رہائش اور مشترکہ کاروبار کا مسئلہ

ہم چھے بھائی اور دو بہنیں ہیں ۔ تین بھائیوں اور دو بہنوں کی شادی ہوچکی ہے۔ تین بھائیوں کی ابھی شادی ہونی باقی ہے۔ ایک بھائی نے شادی کے بعد الگ رہنا شروع کردیا تھا۔ باقی ہم پانچ بھائی (دو شادی شدہ اور تین غیر شادی شدہ) ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ اس پس منظر میں ہمارے سوالات درج ذیل ہیں : (۱) کیا مشترکہ خاندان کی اسلام میں اجازت ہے؟ اگر ہاں تو گھریلو اخراجات کی تقسیم کس طرح ہو؟ اگر نہیں تو کیا شادی کے بعد فوراً الگ رہنا چاہیے؟ اگر کوئی بھائی گھر سے الگ خانگی طور پر رہتا ہو تو کیا مشترکہ خاندان میں اسے ماہانہ خرچ دینا ہوگا؟ (۲) جو بھائی غیر شادی شدہ یا بے روزگار ہیں ان کا خرچ کس کے ذمے ہیں ؟ (۳) ہمارے دو بھائی سلائی کا کارخانہ چلاتے ہیں ۔ پہلے وہ الگ الگ کام کرتے تھے۔ بعد میں بڑے بھائی کے کہنے پر چھوٹے بھائی نے اپنی مشینیں بڑے بھائی کے کارخانے میں منتقل کردیں اور دونوں ساتھ میں کام کرنے لگے۔ کسی نے بھی اپنی حیثیت متعین نہیں کی، نہ کام کی تفصیل سمجھی۔ جس طرح مشترک رہتے تھے، اسی طرح مشترک کارخانہ چلنے لگا۔ لیکن اب چھوٹا بھائی خود کو کارخانے میں پارٹنر سمجھتا ہے اور بڑے بھائی اس کے ساتھ کاریگر جیسا معاملہ کرتے ہیں ۔ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟
جواب

(۱) کسی شخص کی زندگی میں اس کے لڑکوں کی شادی ہوجائے تو وہ اپنی اپنی فیملی کے ساتھ باپ کے گھر بھی رہ سکتے ہیں اور الگ بھی اپنا گھر بسا سکتے ہیں ۔ اسلام میں مشترکہ خاندان کی صرف وہ صورت ناپسندیدہ ہے جس میں کسی جوڑے کا اس کی مرضی سے آزادانہ رہن سہن (Privacy) متاثر ہو۔ لیکن اگر ہر جوڑے کے لیے گھر کا ایک حصہ خاص کر دیا جائے، جس میں کسی دوسرے کا دخل نہ ہو تو تمام لڑکوں کے لیے اپنی اپنی فیملی کے ساتھ ایک بڑے گھر میں رہنے کی گنجائش ہے۔ اس صورت میں گھریلو اخراجات کی تقسیم باہم افہام و تفہیم سے کرلینی چاہیے۔ تاکہ کسی ایک پر بار نہ ہو اور اسے ناگوار ِ خاطر نہ ہو۔ اگر کوئی لڑکا شادی کے بعد الگ رہنے لگے اور مشترکہ خاندان میں شامل نہ ہو تو مشترکہ خاندان کے گھریلو مصارف کے لیے ماہانہ خرچ دینا اس کی ذمے داری نہیں ہے۔
(۲) نابالغ اولاد کی کفالت کی ذمے داری یوں تو باپ پر ہے، لیکن جو لڑکے کمانے لگے ہوں ان کا فرض بنتا ہے کہ باپ کا ہر ممکن تعاون کریں اور اگر اس کی آمدنی کم ہو اور زیر کفالت افراد کی کفالت میں اسے دشواری ہو رہی ہو تو اسے سہارا دیں ۔ اسی طرح اگر باپ کا انتقال ہوگیا ہو تو شادی شدہ اور روزگار سے لگے بڑے بھائیوں کا اخلاقی فرض ہے کہ اپنے چھوٹے اور بے روزگار بھائیوں سے منھ نہ موڑلیں اور انھیں ان کے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کریں ۔
(۳) مشترکہ کاروبار کی صورت میں ضروری ہے کہ ابتدا ہی میں معاملات طے کرلیے گئے ہوں ۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں آگے چل کر بڑے نزاعات شروع ہوجاتے ہیں ۔ شریعت کی تعلیم تو یہ ہے کہ اگر باپ کے کاروبار میں اولاد شریک ہو رہی ہو تو ان کی حیثیت شروع ہی میں متعین کردی جائے کہ وہ کاروبار میں پارٹنر ہیں یا کاریگر یا معاون۔ بھائیوں کے مشترکہ کاروبار میں تو بدرجۂ اولیٰ تمام معاملات صاف ہونے چاہئیں اور ہر فریق کی حیثیت متعین ہونی چاہیے۔ اگر پہلے حیثیتوں کی تعیین اور معاملات کی صفائی نہ ہو پائی ہو تو اب باہم مل بیٹھ کر ہمدردانہ غور کرکے معاملات فیصل کرلینے چاہئیں ۔