مشکوک آمدنی پر قطع تعلق

مرکز قومی بحث میں رقم لگانا کیسا ہے ؟ طریق کار یہ ہے کہ لوگ اپنے پیسے جمع کراتے ہیں اورایک لاکھ پر ۱۰۰۰؍۱۱۰۰ روپے ماہانہ کے حساب سے منافع وصول کرتے ہیں اور رقم بھی محفوظ رہتی ہے ۔ میرے کئی جاننے والے ہیں جنہوں نے اپنی رقم قومی بچت کے مرکز میں رکھی ہے ۔ اکثر آسودہ حال ہیں ۔ذاتی مکان ہے ، ۵۰ ہزار روپے ماہانہ پنشن بھی ملتی ہے ۔ مکان کا ایک حصہ کرایے پر بھی دے رکھاہے۔ خرچ برائے نام ہے ۔ میں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی ایسے شخص کے گھر سے جس کی رقم مرکز قومی بچت میں لگی ہو اورمجھے پتا چل جائے تومیں اس کے گھر سے پانی پینا بھی اپنے لیے ناجائز سمجھتا ہوں ، البتہ گھروالوں کو اس بارے میں منع نہیں کیا ہے اورکہا ہے کہ جومہمان آئے اس کی مناسب خاطر تواضع کی جائے ، البتہ وہ میرے گھر میں کوئی چیز نہ لائے ۔ کیا میرا یہ فیصلہ درست ہے ؟ دین اسلام کی روشنی میں ایسا کرنا کیسا ہے؟ کئی علماء جوازکا بھی فتویٰ دیتے ہیں اورکچھ کہتے ہیں کہ جب حکومت دیتی ہے تو ہم کیوں نہ لیں ؟ بڑے بڑےپڑھے لکھے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں ۔ میری اُلجھن دور فرمادیں ۔
جواب

کسی جمع شدہ رقم پر متعین مقدار میں منافع حاصل کرنا ’ربا ‘ (سود ) ہے، جسے اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن کریم میں سودی لین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان کیا گیا ہے ۔(البقرۃ: ۲۷۸۔۲۷۹) اورحدیث میں ہے کہ سودی کاروبار کرنے والوں اوراس میں معاونت کرنے والوں ، دونوں پراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ۔ (مسلم:۱۵۹۷، ۱۵۹۸) اس لیے اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ سودی کاروبار اور اس میں ملوّ ث افراد کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
البتہ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سود خوری کا ارتکاب کررہا ہوتو کیا اس سے سماجی تعلقات رکھے جاسکتے ہیں ؟ اس کی تقریبات میں شریک ہوا جاسکتا ہے ؟ اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ؟ اور اگروہ کوئی تحفہ دے تواسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟
اس کا فیصلہ کرتے وقت دین کی مجموعی تعلیمات اور شرعی مصلحت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ ایک طرف اہل خاندان اورسماج میں رہنےوالے دیگر افراد سے تعلقات رکھنے کاحکم دیا گیا ہے اوران سے قطع تعلق سے روکا گیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے ۔ آپؐ نے نہ صرف اپنے خاندان والوں اوردیگر اہل ایمان سے خوش گوار تعلقات رکھے، بلکہ سماج کے دیگر غیر مسلم افراد اور غیر مسلم حکم رانوں سے بھی روابط رکھے اور ان کے ساتھ تعلقات میں خوش گواری کے لیے انہیں ہدایا بھیجے اوران کے ہدایا قبول کیے ۔ دوسری طرف حرام مال اورحرام ما کولات ومشروبات سے احتراز کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس لیے فقہا ء نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اگر کسی شخص کی کل آمدنی یا اس کا زیادہ تر حصہ سود پر مبنی ہوتو اس کی دعوت یا اس سے کوئی تحفہ قبول کرنا جائزنہیں ، لیکن اگرایسا نہ ہو اوراس کی زیادہ تر آمدنی حلال ذرائع سے ہوتو اس کی دعوت یا اس کا تحفہ قبول کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں ہے ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) نے فتاوی عالم گیری کے حوالے سے لکھا ہے:
’’اگر معلوم ہوکہ دعوت سودی پیسے سے کی جارہی ہے تب تو دعوت میں شریک ہونا قطعاً جائز نہیں ہے اوراگر دعوت کا حلال پیسےسے ہونا معلوم ہوتو دعوت میں شرکت جائزہےاور متعین طورپر اس کا علم نہ ہو تو پھر اس بات کا اعتبار ہوگا کہ اس کی آمدنی کا غالب ذریعہ کیا ہے ؟ اگر غالب حصہ حرام ہے تو دعوت میں شرکت درست نہیں اورغالب حصہ حلال ہے تو دعوت میں شرکت جائز ہے ‘‘ ۔
(کتاب الفتاویٰ ، زمزم پبلشرز ، کراچی : ۶؍۲۰۱،بہ حوالہ الفتاویٰ الہندیۃ: ۵؍۳۴۳)
علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ جولوگ سودی کاروبار اور لین دین میں ملوّث ہوں ان کی دعوتوں میں شرکت کرنے سے سماج کے سربر آوردہ لوگوں اورخاص طور پر علماء کو احتراز کرنا چاہیے ، تاکہ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہواور دو سروں تک درست پیغام جائے ۔
بہر حال اس معاملے میں دینی مصلحت اور شرعی تقاضے کو پیش نظر رکھنا چاہیے اوراس کے مطابق جوبات مناسب لگے اس پرعمل کرنا چاہیے۔