جواب
اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کی افزائش کا جائز طریقہ نکاح کی صورت میں مشروع کیا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان نکاح کے ذریعے ایک خاص تعلق قائم ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ اولاد کی خواہش فطری طور پر ہر شادی شدہ جوڑے کو ہوتی ہے۔ (آل عمران:۱۴) قرآن میں انھیں دنیاوی زندگی کی زینت (الکہف: ۹۶) اور بندوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان (بنی اسرائیل:۶) قرار دیا گیا ہے۔ انسانوں کی تخلیق کے معاملے میں اس چیز کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی قرار دیا گیا ہے کہ کسی کے یہاں صرف لڑکے پیدا ہوتے ہیں ، کسی کے یہاں صرف لڑکیاں ، کسی کے یہاں دونوں اور کسی کے یہاں مطلق کوئی اولاد نہیں ہوتی:
لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط یَخْلُقُ مَا یَشَآئُط یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثًا وَّ یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَoلا اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّ اِنَاثًاج وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًاط اِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌo
(الشوریٰ: ۴۹،۵۰)
’’اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتاہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
تولید کا فطری طریقہ یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے تناسلی اعضا سے مادۂ منویہ کا اخراج ہوتا ہے۔ مرد کے مادۂ منویہ میں حیوانات منویہ (Sperms)اور عورت کے مادۂ منویہ میں بیضہ (Ovum)ہوتاہے۔ دونوں کا اختلاط و اتصال رحم مادر سے متصل ایک ٹیوب میں ہوتا ہے، جسے Fallopian Tube کہتے ہیں ۔ اتصال کے بعد وہ مخلوط مادہ رحم میں آجاتا ہے اور وہاں استقرار پاکر جنین کی شکل میں پرورش پانے لگتا ہے۔ اسی چیز کو قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ (الدہر: ۲)
’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے۔‘‘
اس فطری طریقے میں کوئی نقص پیدا ہوجائے یا کہیں کوئی رکاوٹ آجائے تو استقرار حمل نہیں ہوسکتا۔ اسی کو بانجھ پن کہتے ہیں ۔ اس کا تعلق مرد سے بھی ہوسکتا ہے، مثلاً وہ مردانہ قوت میں کمی کی وجہ سے مجامعت پر قادر نہ ہو، اس کے مادۂ تولید میں حیوانات منویہ کا تناسب کم اور ان کی حرکت کم زور ہو یا مادۂ تولید کو خصیوں سے عضو تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہوگئی ہوں ۔ اور اس کا تعلق عورت سے بھی ہوسکتا ہے، مثلاً اس کے خصیۃ الرحم (Overy) میں کسی نقص کے سبب اس سے بیضہ کا اخراج ممکن نہ ہو، Fallopian Tube کسی وجہ سے بند ہوگیا ہو، یا کسی مرض کے سبب اس کے رحم میں مخلوط نطفہ کا استقرار ممکن نہ ہو۔
بانجھ پن ایک مرض ہے۔ اس کے ازالہ کے لیے علاجی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں ، جس طرح دوسرے امراض کے ازالے کے لیے علاج کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
یـَا عِبَادَ اللّٰہِ تَدَاوُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَضَعْ دَائً ا اِلّاَ وَضَعَ لَہٗ دَوَائً ا۔
(ابو داؤد: ۳۸۵۵، ترمذی: ۲۰۳۹، ابن ماجہ: ۳۴۳۶)
فطری طریقے سے استقرار حمل ممکن نہ ہو تو اس کے لیے مصنوعی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس عمل کو ٹیسٹ ٹیوب میں بارآوری (In Vitro Fertilization) کہا جاتا ہے۔ اس طریقے میں عورت کا بیضہ اور مرد کا نطفہ حاصل کرکے دونوں کو ایک ٹیسٹ ٹیوب میں بار آور کیا جاتا ہے، پھر ایک متعین مدت کے بعد اس بار آور بیضہ کو عورت کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ اس مصنوعی طریقے میں اگر نطفہ شوہر کا اور بیضہ بیوی کا ہو، دونوں کو کسی ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کرکے بیوی کے رحم میں منتقل کردیا جائے تو شرعی طور پر ایسا کرنا جائز ہے۔
آج کل مغرب میں مصنوعی تولید کے بہت سے طریقے رواج پا گئے ہیں ۔ شوہر مکمل نامرد ہو یا اس کا نطفہ تولید کی صلاحیت سے محروم ہو تو عورت کو بار آور کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کا نطفہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے مادۂ تولید کے بڑے بڑے مراکز (Sperm Banks)قائم ہوگئے ہیں ۔ بیوی کے خصیۃ الرحم سے بیضہ کا اخراج نہ ہوتا ہو تو دوسری عورت سے بیضہ حاصل کرلیا جاتا ہے۔ شوہر کا نطفہ ٹھیک ہو اور بیوی سے بیضہ کا اخراج ہوتا ہو، لیکن وہ رحم کے کسی مرض کی وجہ سے حاملہ نہ ہوسکتی ہو تو کسی دوسری عورت کا رحم کرایے پر لیا جاتا ہے۔ اسلامی شریعت کی رو سے یہ تمام طریقے ناجائز ہیں ۔ اس لیے کہ ان سے اختلاط ِ نسب ہوتا ہے اور نکاح کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اسلام نے نسب کی حفاظت کی تاکید کی ہے اور ان تمام صورتوں کو حرام قرار دیا ہے، جن سے کسی شخص کا نسب مشتبہ ہوجائے۔