جواب
اسلام نے معاملے کی صفائی اور شفافیت پر بہت زور دیا ہے ۔ اس نے تاکید کی ہے کہ اگر کوئی معاہدہ کیا جائے تو اسے اس کی تمام شرائط اورضوابط کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۰ۥۭ (المائدۃ: ۱)
’’ اے لوگوجوایمان لائے ہو! عہد وپیمان پورے کرو ‘‘۔
معاملہ کی شفّافیت کے لیے اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ملتی ہے کہ اسے ضبط ِتحریر میں لے آیا جائے۔ کوئی معاملہ زبانی طے پائے تو بسا اوقات کچھ عرصہ گزرنے کے بعد فریقین میں اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ ایک فریق کوئی بات کہتا ہے تو دوسرا اس کا انکار کرتا ہے ۔ معاملہ کوتحریری شکل دے دی جائے اور دونوں فریقوں کے اس پر دستخط ہوجائیں تو اختلافات سے بڑی حد تک بچا جاسکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْہُ۰ۭ (البقرۃ۲۸۲:)
’’ اے لوگوجوایمان لائے ہو!جب کسی مقر ر مدّت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیاکرو ‘‘۔
یہ ہدایت صرف قرض کے معاملے کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ تمام معاملات میں اس کی پاس دار ی پسندیدہ اوراختلاف وتنازع کورفع کرنے والی ہے۔
آپ نے جوتفصیلات ذکر کی ہیں ان کے مطابق فریق ثانی نے معاملہ کوزبانی رکھا اور آپ کی خواہش بلکہ اصرار کے باوجود اسے تحریری شکل نہیں دی۔ مزید یہ کہ جب معاملہ متعین طور پر ایک برس کے لیے طے ہوا تھا تو اس کی تکمیل کے بعد رقم کی واپسی میں ٹا ل مٹول سے کام لیا ۔ ان کی جانب سے یہ دونوں رویے درست نہ تھے۔
آپ نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ فریق ثانی نے ۲۸ سے ۳۳فی صد منافع کا وعدہ کیا تھا ، لیکن ایک برس کے بعد اس نے صرف اصل ر قم لوٹادی ، منافع کچھ بھی نہیں دیا ، بلکہ منافع کا مطالبہ کرنے پر یہ جواب دیا کہ متعین منافع کا وعدہ تجارت میں سرمایہ لگانے والے کو محض لبھانے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ یہ روّیہ بھی درست نہیں ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ منافع کا تعیّن معاملہ کوربا (سود) کے دائرے میں پہنچا دیتا ہے ، اس لیے مناسب یہ ہے کہ اگر ایک فریق کچھ منافع کی امید دلائےتوساتھ ہی یہ بھی صراحت کردے کہ منافع کی شرح اس سے کم بھی ہوسکتی ہے ، اس کا بھی امکان ہے کہ منافع کچھ بھی نہ ہو اورتجارت میں خسارہ بھی ہوسکتا ہے ۔ ان تمام باتوں پر دونوں فریقوں کی رضا مندی کے بعد ہی انہیں شریک ِ تجارت بننا چاہیے۔
موجودہ صورتِ حال میں میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کسی قانونی کا رروائی سے بچیں ۔ اس میں آپ کا سرمایہ بھی لگے گا اور وقت بھی ، پھر بھی کام یابی یقینی نہیں ۔ آپ اللہ کا شکر اداکریں کہ اصل رقم آپ کو واپس مل گئی ۔ اسے احتیاط اور دانش مندی کے ساتھ کسی دوسری جگہ انوسٹ کریں ۔ آپ چاہیں تواپنا یہ معاملہ اس دینی جماعت کے ذمے داروں کے سامنے رکھ سکتے ہیں جس سے وہ سرکردہ افراد (جن سے آپ نے تجارتی معاملہ کیا تھا ) تعلق رکھتے ہیں ۔