ملازمت پیشہ خواتین کا پردہ

پردہ کے بارے میں کچھ احکام سوال و جواب کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک اور سوال ذہن میں ابھرا کہ جو عورتیں ملازمت پیشہ ہیں ان کے لیے پردہ کا التزام کرنا اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ کیوں کہ دفتروں میں ان کے کام ہی ایسے ہوتے ہیں جہاں ہر وقت ان کے لیے پردہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً جو خواتین پولیس میں بھرتی ہوتی ہیں ان کو چوبیس گھنٹے کھڑے کھڑے ڈیوٹی دینی پڑتی ہے؟
جواب

ذہنوں میں کچھ ایسا تصور بیٹھ گیا ہے کہ پردہ اور مروجہ برقعہ کو مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اور جو عورت برقع نہیں اوڑھتی اسے بے پردہ کہا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ شریعت نے خواتین کے لیے گھروں میں رہنے اور گھروں سے باہر نکلنے کے آداب بیان کردیے ہیں ۔ مثلاً وہ بن ٹھن کر اور بھڑکیلے لباس پہن کر باہر نہ نکلیں ، اپنی زینت کا اظہار نہ کریں ، قابلِ ستر حصوں کو چھپائیں ، اجنبی مردوں کے ساتھ گھلنے ملنے، ان کے ساتھ تنہائی میں رہنے اور لوچ دار آواز میں بات کرنے سے احتراز کریں ، وغیرہ۔ جو عورت ان امور کا لحاظ کرتی ہے وہ شریعت کی نگاہ میں باپردہ ہے۔ چہرہ پردہ میں شامل ہے یا نہیں ؟ اس سلسلے میں عہد صحابہ ہی سے اختلاف رہا ہے۔ بعض صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور بعد کے اہل علم بھی پردہ میں چہرہ کو شامل نہیں کرتے۔ دفتروں ، اسپتالوں ، اسکولوں اور دیگر اداروں میں ملازمت پیشہ خواتین شریعت کے بتائے ہوئے احکام پردہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے کارہائے مفوضہ بہ آسانی انجام دے سکتی ہیں ۔