ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل

ملازمت پیشہ خواتین گھر اور تحریک کے کاموں میں توازن کیسے برقرار رکھیں؟ خاص طور پر وہ خواتین جن کے بچے ابھی چھوٹے ہوں۔

جواب

  اس سوال پر کئی پہلوئوں سے غور کیاجاسکتا ہے

(۱) ملازمت کرنا عورت پر لازم نہیں ہے، البتہ وہ حدودِ شرع کی رعایت کرتے ہوئے ملازمت کرسکتی ہے۔

(۲) محض معیارِ زندگی کی بلندی کے لیے عورت کا ملازمت کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ مال و دولت کے حصول کی کوئی حد نہیں ہے۔ جتنا بھی مل جائے، ھَل مِن مَزِید کی طلب باقی رہتی ہے۔ اس لیے اگر شوہر کی کمائی سے بنیادی ضروریات آسانی سے پوری ہو رہی ہوں تو بیوی کو چاہیے کہ گھر میں رہنے کو ترجیح دے، بچوں کی پرورش و پرداخت اور دینی و اخلاقی تربیت پر توجہ دے اور شوہر اور دیگر افرادِ خانہ کے ساتھ خوش گوار زندگی گزارے۔ تاہم اس کا ملازمت کرنا کبھی اس کے اپنے گھر کی ضرورت ہوسکتا ہے، اس صورت میں جب کہ شوہر کی آمدنی گھر کی ضرورتوں کے لیے ناکافی ہو اور خود سماج کی ضرورت بھی ہوسکتا ہے، جیسے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاتون ٹیچر کا ہونا، یا مریض عورتوں کے لیے خاتون ڈاکٹر کا ہونا مسلم سماج کی ایک ضرورت ہے، ایسی صورت میں عورت کے ملازمت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے شوہر کو چاہیے کہ اسے اس کی اجازت دے۔

(۳) خاندان کے دائرے میں اسلام نے شوہر کو’قوّام‘(محافظ و نگراں) بنایا ہے اور بیوی کو اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ ملازمت کے باوجود ضروری ہے کہ بیوی شوہر کی مطیع و فرماں بردار رہے اور سسرال کے لوگوں سے اچھے تعلقات رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ملازمت کی بنا پر بڑائی جتانے لگے اور دوسروں کو خاطر میں نہ لائے۔

(۴) عورت کی ملازمت کے لیے اس کے شوہر کی اجازت ضروری ہے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر یا اسے ناراض کرکے عورت کا ملازمت کرنا درست نہیں ہے۔ اس سے عائلی تنازعات سر ابھارتے ہیں اور خاندان میں خوش گواری باقی نہیں رہتی۔

(۵) مشاہرہ عورت کی ملکیت ہے۔ وہ اپنی کمائی اپنی مرضی سے خرچ کرسکتی ہے، شوہر کو بھی دے سکتی ہے، لیکن شوہر یا سسرال والوں کا عورت کی مرضی کے بغیر اس کی کمائی پر قبضہ کرلینا درست نہیں ہے۔

(۶) عورت ملازمت کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ پہلے اپنے خاندان کو دیکھے، شوہر کے حقوق ادا کرے، بچوں کی تعلیم و تربیت کی فکر کرے اور خاندان کے دیگر افراد کو دینی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا        (التحریم۶)

’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے۔‘‘

اس آیت کا خطاب جس طرح مردوں سے ہے اسی طرح عورتوں سے بھی ہے۔ دونوں کی ذمے داری ہے کہ پہلے اپنی اخروی نجات کی فکر کریں، پھر اپنے اہل ِخانہ کی اسلامی ذہن سازی کریں۔ اس کے بعد جو بھی وقت بچے اسے دین کی تبلیغ و اشاعت میں لگایا جاسکتا ہے۔ تحریک اسلامی اسی کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ اس سے وابستہ ہر کارکن، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، پہلے اپنی اصلاح کی فکر کرے، پھر اپنے گھر والوں کو دین پر چلانے کی کوشش کرے۔ اہل ِخانہ کی دینی تربیت سے غافل ہوکر تحریک کے دیگر کاموں میں شامل ہونا اور ان میں اپنا وقت صرف کرنا درست نہیں ہے۔ یہ الٹی ترتیب ہے، جس سے وابستگانِ تحریک کو بچنا چاہیے۔