جواب
سب سے پہلے تو میں یہ عرض کردوں کہ میں کوئی رجسٹرڈ/ سند یافتہ مفتی نہیں ہوں ، اس لیے میرے اس جواب کی حیثیت فتوے کی نہیں ہے۔ میں محض اسلامیات کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں ۔ صورت ِ مسئلہ کا جو جواب روحِ دین اور احکامِ شریعت کی روشنی میں میری سمجھ میں آیا ہے اسے ذیل میں تحریر کر رہا ہوں :
(۱) دینی تنظیم اور مقامی بلڈر نے باہمی اعتماد کی فضا میں تنظیم کی عمارت کی از سرِ نو تعمیر کا آغاز کیا۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد باہمی اعتماد کے شفاف آئینہ میں لکیر پڑ گئی۔ فریقین کو غور کرنا چاہیے کہ ان سے غلطی کہاں ہوئی؟ بلڈر نے یہ کام ان کے بہ قول اپنے مرحوم والد کے ایصال ثواب کے لیے کیا تھا۔ ان کا یہ کام بڑا مبارک ہے۔ بچوں کے لیے یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ وہ اپنے والد کے انتقال کے بعد صدقۂ جاریہ کا کوئی ایسا کام کردیں ، جس کا ثواب ان کو برابر پہنچتا رہے۔ حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ لیکن بعد میں انھوں نے جو رویہ اختیار کیا، انھیں سوچنا چاہیے کہ اگر ان کے والدمرحوم زندہ ہوتے تو کیا وہ خود ایسا رویہ اختیار کرتے؟ یا اپنے صاحب زادگان کو یہ رویہ اختیار کرتے ہوئے دیکھتے تو کیا وہ خوش ہوتے؟ کسی تنظیم سے وابستگی اجتماعیت کی روح پروان چڑھاتی ہے۔ اس میں اجتماعی مفاد پر انفرادی مفاد کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ صدقۂ جاریہ کے نام پر کوئی ایسا کام کرنا یا ایسا رویہ اختیار کرنا جس سے اس مرحوم شخصیت کی روح کو، جس کے ایصال ِ ثواب کے لیے وہ کام انجام دیا گیا ہے، تکلیف پہنچے، میں اسے کوئی کارِ خیر نہیں سمجھتا۔ تنظیم کی غلطی یہ ہے کہ اسے ابتدا ہی سے تمام معاملات تحریری شکل میں طے کرنے چاہیے تھے۔ اگر ایسا کیا جاتا تو بعد میں رونما ہونے والے اختلافات کو خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکتا تھا۔ عموماً دینی حلقوں میں اس معاملے میں کوتاہی پائی جاتی ہے۔ شروع میں معاملات اعتماد کی فضا میں زبانی طے کیے جاتے ہیں ، بعد میں اختلاف ہونے کی صورت میں فریقین کے بیانات میں تضاد ہوتا ہے اور معاملہ الجھ کر رہ جاتا ہے۔ قرآن کریم کی سب سے طویل آیت (البقرۃ: ۲۸۲) جسے آیت ِ مداینہ کہا جاتا ہے، اس میں قرض کے لین دین کے معاملے کو ضبط ِ تحریر میں لانے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایک ایسے سماج میں ، جہاں لکھنا جاننے والوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ انھیں انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا، معاملات کو ضبط ِ تحریر میں لانے کا اتنا تاکیدی حکم کیوں دیا گیا؟
(۲) آپ نے لکھا ہے کہ بلڈر تعمیر شدہ عمارت کی بالائی دو منزلوں میں سے ایک میں قرآن کے نام سے ایک دینی پروجیکٹ چلا رہے ہیں ۔ یہ بڑا مبارک کام ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے فروغ دے اور اس کے ذریعے گم کردہ راہ انسانوں کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے معاملات میں شفافیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آپ نے لکھا ہے کہ ابتدا میں انھوں نے اپنے والد مرحوم کے ایصال ثواب کی خاطر اپنے خرچ پر تنظیم کے لیے عمارت تعمیر کرنے کی پیش کش کی، مگر بعد میں انھوں نے تنظیم کے ذمہ داروں کو دھوکے میں رکھ کر ایک مشترکہ ایگریمنٹ کرالیا اور اب وہ کبھی تعمیر شدہ عمارت کی مشترکہ ملکیت کی بات کہتے ہیں ، کبھی تنظیم کی ملکیت تو تسلیم کرتے ہیں ، مگر تنظیم کو اس کی حوالگی کے لیے مختلف شرائط عائد کرتے ہیں ۔ یہ رویہ قرآن کا پیغام عام کرنے کے مشن کے علم بردار کسی شخص کو زیب نہیں دیتا۔ آدمی کی زبان ہر وقت قرآن کے ذکر اور پیغام کی تبلیغ میں منہمک ہو، لیکن اس کا کردار قرآن کی تعلیمات کی دھجیاں اڑاتا ہو، یہ رویہ کسی حقیقی اور باشعور مسلمان کا نہیں ہوسکتا۔ لیکن افسوس کہ ایسے کردار کے لوگ پائے جاتے ہیں اور آج ہی نہیں ، ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے لوگوں کی پیش گوئی فرمائی تھی: ’’کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے، لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہوجائیں گے جس طرح تیر شکار کے اندر سے ہوکر باہر نکل جاتا ہے۔‘‘ (بخاری: ۳۳۴۴، و دیگر مقامات)
احادیث میں دھوکے کی شدید الفاظ میں مذمت آئی ہے۔ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘ (مسلم: ۱۰۱) ایک حدیث میں آپ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے: ’’دھوکا دہی کا انجام جہنم ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب البیوع، باب النجش) ہم میں سے ہر شخص کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ اس چند روزہ زندگی میں وہ دوسرے کو دھوکہ دے کر کچھ مال حاصل کرسکتا یا کسی جائیداد پر قابض ہوسکتا ہے، مگر میدان ِ حشر میں بارگاہِ رب العزت کے روبرو جب اس کے اعضا اس کے خلاف گواہی دیں گے تو وہاں اس کے لیے حسرت و ندامت ہوگی اور اس وقت کی ندامت اس کے کچھ کام نہ آئے گی۔
(۳) آپ نے لکھا ہے کہ تنازع کو حل کرنے کے لیے تنظیم کے ذمے داروں نے بلڈر کے سامنے چار تجاویز رکھی ہیں :
(الف) وہ غیر مشروط طور پر بلڈنگ تنظیم کے حوالے کردیں ۔
(ب) بلڈنگ پر تنظیم کی ملکیت تسلیم کرتے ہوئے اپنا پروجیکٹ چلانے کے لیے ذمہ داران ِ تنظیم سے تحریری اجازت لیں ۔
(ج) بلڈنگ پر صرف شدہ رقم تنظیم سے لے کر بلڈنگ اس کے حوالے کردیں ۔
(د) زمین کی رقم تنظیم کو لوٹا دیں ۔
ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو چوتھی تجویز سے اتفاق نہیں ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ بلڈر نے دھوکا دے کر عمارت کی دو منزلیں اپنے نام رجسٹرڈ کروالی ہیں ، وہ غاصب اور ظالم ہیں ، زمین کی رقم لے کر پوری عمارت کو ان کے حوالے کردینا ظلم کا ساتھ دینا ہے۔ اس لیے ان سے رقم لے کر معاملے کو ختم کرنے کے بہ جائے حکمت کے ساتھ آخر دم تک ظلم کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ذمہ داران ِ تنظیم نے مذکورہ تجاویز پیش کرکے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ اگر ابتدائی دو تجاویز فریق ِ مخالف کے نزدیک اس کے ظلم و جبر اور دھاندلی کی بنا پر درخور ِ اعتنا نہیں ہیں تو آخری دو تجاویز میں سے کسی ایک پر باہم متفق ہوکر معاملہ حل کیا جاسکتا ہے۔ ذمہ داران مصالح ِ تنظیم کو پیش نظر رکھ کر جس تجویز کو اس کے حق میں بہتر سمجھیں ، اختیار کرلیں ۔ صلح حدیبیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس موقعے پر کفار ِ قریش کی طرف سے جو شرائط پیش کی گئی تھیں وہ سراسر ظالمانہ اور ایک طرفہ تھیں ۔ اسی بنا پر بہت سے جلیل القدر صحابہ ان پر کسی طرح رضا مند نہ ہوتے تھے۔ مگر اللہ کے رسول ﷺ نے ان کو قبول کرنے میں مصلحت سمجھی تو انھی پر معاہدہ کرلیا۔ ہجرت ِ مدینہ کے موقع پر حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی اور مشرکین کو چیلنج کیا کہ جو شخص بھی اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنانا چاہتا ہے، وہ مجھے روک کر دیکھے اور اللہ کے رسول ﷺ نے خفیہ طور پر چھپ چھپا کر ہجرت فرمائی۔ حضرت عمرؓ کا عمل بھی صحیح تھا اور اللہ کے رسول ﷺ کا عمل بھی غلط نہ تھا۔ بل کہ آپ کے اس اسوہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر موقع پر عزیمت، جرأت اور جواں مردی کا مظاہرہ کرنا مطلوب نہیں ہے، بل کہ بسا اوقات بہ ظاہر دب کر معاملات سلجھا لینا ہی حکمت و مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں چوتھی تجویز کے حق میں ہوں ۔ میرا کہنا بس یہ ہے کہ تیسری اور چوتھی دونوں تجویزیں قابل ِ اختیار ہیں ۔ ذمہ داران ِ تنظیم رفقا کے مشورے سے اور مصالح ِ تنظیم کو پیش ِ نظر رکھ کر کسی کو بھی قبول کرسکتے ہیں ۔ البتہ میرے نزدیک تنظیم کی قانونی پوزیشن کم زور ہے۔ مشترکہ ایگریمنٹ پر ذمہ دار ِ تنظیم نے بھی دستخط کیے ہیں ۔ اگر فریق ِ مخالف کی نیت میں فتور تھا اور اس نے غلط بیانی اور فریب دہی کے ساتھ اس ایگریمنٹ پر دستخط کروائے ہیں تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ وہ روز ِ قیامت اس سے نمٹ لے گا۔ لیکن دنیا میں معاملات کا فیصلہ نیت پر نہیں ، بل کہ ظاہر ِ اعمال پر ہوتا ہے۔
ہر مسلمان کو یہ حقیقت ہر لمحہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دنیوی زندگی چند روزہ ہے۔ یہاں وہ جو کچھ اچھا یا برا کام کرے گا اس کا انعام یا انجام آخرت میں پائے گا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’جس شخص نے کسی کی ایک بالشت زمین پر ناحق قبضہ کیا، اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت اس طرح کی سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈال دے گا۔‘‘ (بخاری: ۳۱۹۸، مسلم: ۱۶۱۰)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!