جواب
قرآن کریم مکمل ہو یا اس کا کوئی جز، ناپاکی کی حالت میں اسے ہاتھ لگانے کو فقہاء نے ناجائز قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
اَنْ لاَ یَمُسَّ الْقُرْآنَ اِلّاَ طَاھِرٌ ۔(۱)
’’قرآن کو صرف پاک شخص ہی چھوئے۔‘‘
لیکن یہ حکم مصحف یعنی مطبوعہ کتابی شکل میں قرآن کا ہے۔ کیسٹ، MP3، موبائل یا کوئی دوسری چیز، جس میں قرآن کی ریکارڈنگ ہو، اسے ناپاکی کی حالت میں چھوا جاسکتا ہے۔
جہاں تک ایسا موبائل فون، جس میں پورا قرآن یا اس کا کچھ حصہ ریکارڈ ہو، اسے ساتھ رکھ کر بیت الخلاء جانے کا معاملہ ہے تو گھر، دفتر یا کسی ایسی جگہ جہاں بیت الخلا جاتے وقت اسے الگ رکھنا ممکن ہو، وہاں ایسا ہی کرنا چاہیے، لیکن اگر حفاظت کے نقطۂ نظر سے اسے ساتھ رکھنا ضروری ہو تو کوئی شخص اسے اپنے ساتھ رکھ کر بھی بیت الخلاء جاسکتا ہے۔ البتہ قرآنی آیات کو موبائل فون کی رنگ ٹون بنانے سے بچنا چاہیے۔ فون کی گھنٹی کسی وقت اور کسی جگہ بھی بج سکتی ہے، اس وقت بھی جب آدمی بیت الخلا میں ہو۔ بسا اوقات گھنٹی بجتے ہی فوراً آدمی فون ریسیو کرلیتا ہے، جب کہ آیت کا تھوڑا سا حصہ ہی سنائی دیا ہو، اس سے بسا اوقات آیت کا مفہوم خبط ہوتا ہے اور ایسا کرنے سے بے ادبی کا بھی اظہار ہوتاہے۔