جواب
دین میں امانت داری کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے، اس کا تاکیدی حکم بیان کیا گیا ہے اور اس کا التزام کرنے والوں کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَالا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِط (النساء: ۵۸)
’’اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل ِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘
سورہ المؤمنون (آیات: ۱-۱۱) اور سورہ المعارج (آیات: ۲۲-۳۵) میں جہاں اہل ِ ایمان کے بہت سے اوصاف بیان کیے گئے ہیں ، وہیں ان کے اس وصف کو بھی نمایاں کیا گیا ہے:
وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَ عَھْدِھِمْ رٰعُوْنَoص لا(المومنون:۸، المعارج: ۳۲)
’’جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں ۔‘‘
اس کے بالمقابل جو لوگ عہد و امانت کی پابندی نہیں کرتے ان کے دین و ایمان کی نفی کی گئی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے خطبوں میں یہ جملے اکثر پڑھا کرتے تھے:
لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَ اَمَانَۃَ لَہٗ، وَلاَ دِیْنَ لِمَنْ لّاَ عَھْدَ لَہٗ۔
(مسند احمد: ۳/۱۳۵، ۱۵۴، ۲۱۰)
’’جس شخص میں امانت داری نہ ہو اس کا ایمان معتبر نہیں اور جو شخص عہد کا پابند نہ ہو اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں ۔‘‘
’امانت داری‘ کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ کسی شخص کے پاس کوئی رقم بہ طور حفاظت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خرد برد نہ کرے، بل کہ اس کا بہت وسیع مفہوم ہے۔ کوئی راز کی بات بتائی جائے اور اس کا افشا کرنے سے منع کیا جائے تو وہ امانت ہے، کوئی ذمہ داری دی جائے تو وہ امانت ہے، آدمی کہیں ملازم ہو تو ملازمت سے متعلق کام امانت ہیں ، کچھ خدمات اس سے متعلق ہوں تو ان کی صحیح طریقے سے انجام دہی امانت ہے۔ انسان کی صلاحیت اور وقت اس کے پاس اللہ کی امانت ہیں ۔ کسی طرح کے مالی معاملات اس سے متعلق ہوں تو ان کا صحیح ریکارڈ رکھنا امانت ہے۔
دین کا صحیح تصور یہ ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں اور اس کے حکموں کے مطابق گزرے۔ نمازیں پڑھنا، روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا اور حج کرنا ہی عبادت نہیں ہے، بل کہ خالص دنیاوی کام بھی اگر اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کے مطابق انجام دیے جائیں تو وہ بھی عبادت ہیں ۔ لوگ سمجھتے تھے کہ صدقہ صرف اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کو کہتے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ارشادات میں متعدد ایسے کاموں کو بھی صدقہ شمار کرایا جنھیں مطلق دنیاوی کام سمجھا جاتا تھا اور جن میں اجر و ثواب ہونے کا کسی کے ذہن میں خیال نہ آتا تھا۔ ایک موقع پر آپؐ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو متعدد باتوں کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
وَ اِنَّکَ مَھْمَا اَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَۃٍ فَاِنَّھَا صَدَقَۃٌ حَتّٰی اللُّقْمَۃَ تَرْفَعُھَا اِلٰی فِی امْرَاْتِکَ۔ (صحیح بخاری، کتاب الوصایا، حدیث: ۲۷۴۲)
’’تم جو کچھ بھی خرچ کروگے وہ تمھارے لیے صدقہ ہے، یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جسے تم اٹھا کر اپنی بیوی کو دوگے ۔‘‘
صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں :
وَ لَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَۃً تَبْتَغِیْ بِھَا وَجْہَ اللّٰہِ اِلّاَ اُجِرْتَ بِھَا حَتَّی اللُّقْمَۃَ تَجْعَلُھَا فِی فِی امْرَاَتِکَ۔ (کتاب الوصیۃ، حدیث: ۴۲۰۹)
’’تم جو کچھ بھی خرچ کروگے، اگر اس سے تمھارا مقصود اللہ کی رضا جوئی ہے تو اس پر اجر کے مستحق ہوگے، حتی کہ اس لقمے پر بھی تمھیں اجر ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔‘‘
آپ نے لکھا ہے کہ ایمان داری کے ساتھ ملازمت سے آپ کو جو کچھ ملتا ہے اس سے آپ کے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا بھی مشکل سے انتظام ہو پاتا ہے۔ جب کہ آپ کے آفس کے ساتھیوں نے تھوڑی بہت بے ایمانی کرکے کافی دولت اکٹھا کرلی ہے۔ کیا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ بے ایمانی کے ذریعے اکٹھا کی گئی اپنے ساتھیوں کی دولت کو آپ رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ، حالاں کہ انھوں نے اپنے لیے دولت نہیں ، بل کہ آگ کے انگارے اکٹھا کیے ہیں ۔ کیا جہنم کی آگ کے انگارے رشک کرنے کی چیز ہیں ۔
اس موقع پر قارون کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے، جس کا تذکرہ قرآن نے بہت مؤثر اور عبرت انگیز اسلوب میں کیا ہے۔ اس نے بیان کیا ہے کہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم یعنی بنی اسرائیل میں سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مال و دولت کے اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں ہی طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا سکتی تھی۔ اس کی عیش و عشرت اور ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر جو لوگ دنیاوی زندگی کے طالب تھے وہ کہنے لگے: ’’کاش! ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑے نصیبے والا ہے۔‘‘ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا تو وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے، کہنے لگے: ’’افسوس ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، نپا تلا دیتا ہے۔‘‘ (ملاحظہ کیجیے سورہ القصص: ۷۶- ۸۲) دوسروں کا مال و دولت دیکھ کراہل ِ ایمان کا کیا رویہ ہونا چاہیے اسے بھی قرآن نے قارون کے مذکورہ واقعے کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ قارون کے ٹھاٹھ دیکھ کر جب کچھ لوگوں نے اس پر رشک کا اظہار کیا تو ’’جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے: افسوس تمھارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو۔‘‘ (القصص: ۸۰)
ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ ’’ایمان داری مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، روپے وغیرہ کا لالچ نہیں ہے‘‘اللہ تعالیٰ آپ کی اس خوبی میں مزید اضافہ کرے، لیکن دوسری طرف آپ یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ ’’کیا موقع و محل سے تھوڑی بے ایمانی کی جاسکتی ہے‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بے ایمانی کی شناعت، دنیاوی اور اخروی دونوں اعتبار سے اس کا جرم ہونا اور روزِ قیامت اس کی سزا کی ہول ناکی کا احساس نہیں ہے۔ غلاظت غلاظت ہے، خواہ زیادہ ہو یا کم۔ میٹھے اور لذیذ مشروب کے ایک گلاس میں پیشاب کا ایک قطرہ ڈال دیا جائے تو کیا کوئی سلیم الطبع انسان اسے پینا گوارا کرے گا؟ جس طرح بے ایمانی کرکے حاصل کیے گئے لاکھوں کروڑوں روپے حرام ہیں اسی طرح ایک پیسہ بھی حرام ہے۔
آپ کو فکر ہے کہ ایمان داری کے پیسے سے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل سے ہوپاتا ہے، اس لیے تھوڑی بے ایمانی سے کچھ اور رقم حاصل کرکے ان کے لیے آسائش فراہم کردی جائے۔ یہ بہت بڑی نادانی ہے کہ آدمی دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت خراب کر لے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَبْدٌ اَذْھَبَ آخِرَتَہٗ بِدُنْیَا غَیْرِہٖ۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، حدیث: ۳۹۶۶، اسے ابن ابی شیبہ نے بھی اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ علامہ البانی نے اسے ضعیف، لیکن علامہ بوصیری نے حسن قرار دیا ہے)
’’قیامت کے دن بارگاہِ الٰہی میں بدترین درجہ اس شخص کا ہوگا، جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت برباد کردے۔‘‘
دنیا میں تمام انسان آزمائش کی حالت میں ہیں ۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ مال و دولت دے کر آزما رہا ہے اور کچھ لوگوں کو اس سے محروم کرکے۔ سب امتحان گاہ میں ہیں ۔ کچھ کے ہاتھ میں حساب (Mathematics)کا پرچہ دیا گیا ہے اور کچھ کے ہاتھ میں ادب (Literature) کا۔ بڑا نادان ہوگا وہ شخص جو اپنا پرچہ حل کرنے کے بہ جائے دوسرے کے پرچہ میں تاک جھانک کرتا رہے، یا لٹریچر کے پرچے میں ریاضی کے کیلکولیشن کرنے لگے۔