مہر فاطمی کی حیثیت

مہر فاطمی کو مسنون قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ موجودہ دور میں اس کے برابر کتنی رقم بنتی ہے؟ اگر کسی لڑکی کا مہر چاندی سونے کی شکل میں باندھا گیا، لیکن فوراً اس کی ادائی نہیں ہوئی، بلکہ اس پر دس پندرہ سال گزر گئے۔ اب مہر ادا کرنا ہو تو چاندی یا سونے کی موجودہ مالیت کے لحاظ سے حساب ہوگا یا اُس زمانے کے حساب سے جب مہر واجب ہوا تھا؟
جواب

نکاح کے دوران جن کاموں کی انجام دہی کی تاکید آئی ہے، ان میں سے ایک مہر بھی ہے۔ اگرچہ وہ نہ نکاح کے ارکان میں سے ہے نہ اس کی شرائط میں سے، لیکن اس کی ادائی پر بہت زور دیا گیا ہے۔
مہر اتنا ہی طے کرنا چاہیے جتنا شوہر آسانی سے ادا کرسکے۔ بہت زیادہ مہر مقرر کرنے کو فخر و مباہاۃ کی چیز سمجھ لیا گیاہے، حالاں کہ یہ چیز شرعی اعتبار سے بھی غلط ہے اور عقلی اعتبار سے بھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’لوگو! بہت زیادہ مہر مقرر کرنے سے اجتناب کرو۔ اگر یہ کوئی اعزاز و اکرام کی چیز ہوتی تو رسول اللہ ﷺ ایسا ضرور کرتے۔ حالاں کہ آپؐ نے جن خواتین سے نکاح کیا ان میں سے کسی کو بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر نہیں دیا اور آپؐ نے اپنی صاحب زادیوں میں سے بھی کسی کا مہر اس سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا۔‘‘ (۱)
امام ابوداؤد نے وضاحت کی ہے کہ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتاہے۔ اس اعتبار سے بارہ اوقیہ ۴۸۰ درہم کے برابر ہوئے۔
ایک دوسری روایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج کا کیا مہر طے فرمایا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: ساڑھے بارہ اوقیہ(۲) یہ مقدار پانچ سو درہم کے برابر ہوتی ہے۔
آں حضرت ﷺ نے اپنی دوسری صاحب زادیوں کے لیے جو مہر طے فرمایا تھا وہی حضرت فاطمہؓ کا بھی مہر تھا۔ اس کو الگ سے کوئی انفرادی اور امتیازی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ مہر فاطمی کو سنت قرار دیا جاتاہے، لیکن اسے اس معنی میں سنت سمجھنا غلط ہے کہ اس سے کم یا اس سے زیادہ مہر طے کرنا غیر افضل ہے۔ اس معاملے میں درست رویہ یہ ہے کہ مہر حیثیت کے مطابق متعین کرنا چاہیے۔ کم یا زیادہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ صحابہ کرام جو اتباع سنت کے بہت زیادہ مشتاق رہتے تھے، ان کے بہ کثرت واقعات مروی ہیں کہ انھوں نے کم سے کم مہر پر نکاح کیا۔
ہندستانی وزن کے اعتبار سے ایک درہم ایک چوتھائی تولے سے کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے مہر فاطمی ۵۰۰ درہم کی مقدار ۱۳۱ تولہ ۳ ماشہ چاندی کے برابر ہے۔ یہ تحقیق مشہور عالم دین مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کی ہے۔ ( ۱) یہ مقدار انگریزی وزن کے اعتبار سے ایک کلو پانچ سو اکتیس (۱۵۳۱) گرام کے برابر ہے۔ اگر کوئی شخص مہر فاطمی پر نکاح کرتا ہے تو اسے اس مقدار کی چاندی کی مالیت کے برابر روپیہ ادا کرنا ہوگا۔
مہر جس وقت طے کیا جائے، بہتر ہے کہ اسی وقت ادا کردیا جائے۔ لیکن اگر کسی شخص نے اس وقت ادا نہیں کیا اور بعد میں کچھ عرصہ گزر جانے پر وہ ادا کرنا چاہے تو وقت ِ ادائی مذکورہ مقدار ایک کلو ۱۳۱ گرام کی چاندی کی مالیت کے بہ قدر روپیہ ادا کرنا اس پر لازم ہوگا۔ اس زمانے کے نرخ کا اعتبار نہ ہوگا جب اس پر مہر واجب ہوا تھا۔