میراث کے چند مسائل

ایک صاحب کے دو بچے تھے: ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ ان کے پاس ایک مکان تھا۔ اسے انھوں نے پندرہ لاکھ روپے میں فروخت کرکے ایک دوسرا مکان خریدا، جس کی مالیت پچیس لاکھ روپے تھی۔ دس لاکھ روپے ان کے لڑکے نے لون لے کر شامل کیے، جسے بعد میں اس نے ادا کردیا۔ ابتدا میں مکان کی رجسٹری ان صاحب کے نام سے ہوئی، مگر چند سال کے بعد ان کی زندگی ہی میں ان کے لڑکے نے اسے اپنے نام کرالیا۔ کیا ان صاحب کے انتقال کے بعد اُس مکان میں ان کی لڑکی کا کچھ حق بنتا ہے ؟ واضح رہے کہ دوسرا مکان خریدنے میں ان صاحب کے پندرہ لاکھ اور ان کے لڑکے کے دس لاکھ روپے لگے تھے۔ وہ اپنی زندگی میں بیٹے سے وراثت دینے کی بات بھی کرتے تھے، مگر ان کے بیٹے نے کسی طرح ان کی زندگی ہی میں مکان اپنے نام کرالیا تھا۔
جواب

وراثت کا تعلق کسی شخص کی وفات کے بعد اس کی مملوکہ جائداد کی تقسیم سے ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں اپنا کچھ مال یا زمین جائداد کسی کو دے دے، اسے ہبہ کہتے ہیں ۔ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی پراپرٹی اپنے بچوں میں تقسیم کر رہا ہے تو وہ ان کے درمیان کچھ تفریق نہ کرے ،نہ کسی کو محروم کرے ، لیکن بہ ہرحال اسے قانونی طور پر اختیار ہے کہ وہ اپنے مال کا جتنا حصہ چاہے، کسی کو ہبہ کرسکتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی زندگی میں اس کے لڑکے نے مکان اپنے نام سے رجسٹری کرالیا۔ ان صاحب کی خاموشی ان کی رضامندی کی دلیل ہے۔ اب جب کہ وہ مکان ان کی ملکیت میں رہا ہی نہیں تو ان کے انتقال کے بعد اس کی بہ طور مالِ وراثت تقسیم کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اس بنا پر اُس میں لڑکی کا کچھ حصہ نہیں بنتا۔ ان صاحب کا اپنی زندگی میں بیٹے سے اپنی بہن کو بھی وراثت دینے کی بات کہنا بے موقع ہے۔ جب وہ اپنی زندگی میں ، جب کہ ان کی پراپرٹی ان کے نام سے تھی، اپنی بیٹی کو کچھ نہیں دے سکے تو ان کا یہ امید رکھنا فضول تھا کہ ان کا بیٹا ان کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی یعنی اپنی بہن کا خیال رکھے گا اور اس کا بھی حصہ لگائے گا۔