جواب
(۱) میراث کے احکام قرآن کریم کی سورہ النساء آیات: ۱۱، ۱۲، ۱۷۶ میں تفصیل سے مذکور ہیں ۔ ان میں درج ذیل جزئیات کا بھی بیان ہے:
(الف) ’ کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اگر وہ صاحب اولاد ہو تو بیوی کا حصہ آٹھواں ہوگا اور اگر لاولد ہو تو بیوی کا حصہ ایک چوتھائی ہوگا۔‘ (النساء: ۱۲)
(ب) ’اگر اولاد میں اس کی صرف ایک لڑکی ہو تو وہ نصف ترکے کی مستحق ہوگی۔‘
(النساء: ۱۱)
(ج) ’صاحب اولاد ہونے کی صورت میں اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا۔‘ (النساء: ۱۱)
(۲) جن رشتے داروں کے حصے متعین ہیں انھیں اصحاب الفرائض کہا جاتا ہے۔ دوسرے رشتے دار عصبہ اور ذوی الارحام کہلاتے ہیں ۔ ان کی ایک ترتیب بنا دی گئی ہے۔ ترکہ اصحاب ِ فرائض میں تقسیم کردیے جانے کے بعد اگر اس میں سے کچھ بچتا ہے تو حسب ترتیب اس میں سے دوسرے رشتے داروں عصبہ و ذوی الارحام کو حصہ ملے گا۔ فقہ کی کتابوں میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ آپ نے صراحت کی ہے کہ میت کے مذکور تین وارثوں کے علاوہ اس کا اور کوئی رشتے دار نہیں ہے۔
(۳) ترکہ اصحاب الفرائض میں تقسیم ہونے کے بعد اگر کچھ حصہ بچ رہے اور اسے لینے والا کوئی رشتے دار (عصبہ وغیرہ) موجود نہ ہو تو اسے دوبارہ اصحاب الفرائض کے درمیان ان کے حصوں کی نسبتوں کے اعتبار سے تقسیم کردیا جائے گا۔ اسے فقہی اصطلاح میں ’رد‘ کہا جاتا ہے۔ دوبارہ تقسیم کی صورت میں فقہ حنفی میں بیوی اور شوہر کو حصہ پانے سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس لیے کہ ان کے درمیان نسبی رشتہ نہیں ہوتا ہے۔
صورت مسئولہ میں بھی یہی معاملہ ہے۔ بیوی، بیٹی اور ماں کے درمیان ترکے کی تقسیم اس طرح ہوگی:
۸-۱ + ۲-۱ + ۶-۱ = ۳+۱۲+۴--------- ۲۴ = ۲۴ --- ۱۹
پھر باقی ماندہ حصہ (۲۴---۵ ) اس طرح تقسیم ہوگا کہ اس میں سے بیوی کو کچھ نہ ملے گا۔
بیٹی اور ماں کے حصوں میں ۳:۱ کی نسبت ہے۔ اسی اعتبار سے یہ باقی ماندہ حصہ بھی ان کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا۔